89

پانامہ کے فیصلے کے چک بیلی خان کے لوگوں پر اثرات

مسعود جیلانی‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے معزز جج نے کہا تھا کہ وہ ایسا فیصلہ دیں گے جسے بیس سال تک یاد رکھا جائے گا اور لوگ اس کی مثالیں دیا کریں گے آخر کار عدالت نے وہ فیصلہ دے ہی دیا اکثر اوقات توقع یہی ہوتی ہے کہ عدالتی فیصلوں میں ملزم کو سزا ہوتی ہے یا اسے بری کر دیا جاتا ہے جس پر مدعی اور مدعا علیہ دونوں میں سے ایک خوش اور دوسرا رنجیدہ ہوتا ہے اس عدالتی فیصلے میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں پارٹیوں کے لوگ خوش ہو رہے ہیں اور مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ نے ایک بات ضرور کی کہ مدعا علیہ کو یہ نہیں کہا کہ یہ ملزم نہیں ہیں ان کے جرم کی تصدیق کی گئی دو جج صاحبان نے تو اس تصدیق کو مکمل کر دیا جبکہ باقی نے اسے مزید تفتیش کے لئے کہہ دیا اور اس کے لئے انہی مدعا علیہ کے ماتحت آنے والے لوگوں پر مشتمل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم صادر کردیا چونکہ عدالتی فیصلوں کا عوام سے براہِ راست تعلق ہوتا ہے اور اسے وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کی کچھ مثالیں میرے پاس موجود ہیں جنہیں میں قارئین کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں پانامہ کیس کے فیصلے سے کچھ روز قبل میں چک بیلی خان کی ورکشاپ میں آفتاب نامی مکینک کے پاس گاڑی ٹھیک کروانے گیا وہاں مجھ سے قبل مسلم لیگ ن کے مقامی راہنما اور یونین کونسل دھندہ کے چئیرمین سید عقیل حسین شاہ بھی گاڑی ٹھیک کروانے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے میں نے ان سے سلام دعا کی اور مکینک کو مصروف دیکھ کر واپس آگیا تھوڑی دیر بعد جب چئیر مین صاحب اپنی گاڑی ٹھیک کروا کے چلے گئے تو میں پھر مکینک کے پاس گیا آگے موٹر مکینک اور اس کا شاگرد بجلی کا بل زیادہ آنے پرپریشان حالت میں آپس میں بحث کر رہے تھے اور واپڈا کو کوس رہے تھے میں نے انہیں کہا کہ آپ متعلقہ اتھارٹی کے پاس جا کر بل میں غلط اندارج کی نشاندہی کریں وہ اسے ٹھیک کر دیں گے دیکھیں آج تو ملک کا وزیرِ اعظم بھی عدالت کے کٹہرے میں ہے میری بات پر مکینک کے شاگرد نے فوراً جواب پلٹا اور کہا چھوڑیں جی اس ملک میں چوروں کی حکمرانی ہے پانامہ کیس کا بھی کچھ نہیں ہو گا ابھی ہماری ورکشاپ سے یونین کونسل دھندہ کے چئیرمین سید عقیل حسین شاہ گاڑی ٹھیک کروا کے گئے ہیں وہ ہمیں بتا رہے تھے کہ میرے گاؤں میں ایک آدمی نے صرف پی ٹی آئی کے راہنما کرنل(ر) اجمل صابر راجہ کو چائے پلائی تھی تو ہم نے اسے تین مہینے کے لئے جیل بھجوایا شاگرد کہنے لگا کہ ایک اتنے بڑے عہدے پر بیٹھنے والے آدمی کی زبان یہ الفاظ سن کر مجھے بہت ناا میدی ہوئی اسی طرح حالیہ بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن سے باغی ہو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے چئیرمین کے امیدوار چوہدری محمد افضل کے متعلق ایک لیگی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ میں ایک آدمی کو پولیس چوکی بٹھا دیتا ہوں یہ چوہدری محمد افضل صرف اسے اٹھوا کر لے آئے تو میں اس کی حیثیت کو مان لوں گا ان دو مثالوں کے علاوہ پولیس چوکی چک بیلی خان اور تھانہ چونترہ میں جب بھی انسان کا چکر لگے تو وہاں ایک نہ ایک ن لیگی ضرور تھانیدار کے ساتھ برا جمان نظر آئے گا اور ن لیگ کے مخالف تو انصاف کے حصول کے کبھی بھی پولیس چوکی اور تھانے کا رخ ہی نہیں کرتے کیونکہ انہیں انصاف کی توقع ہی نہیں ہوتی یہ چند مثالیں میں نے وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان صاحب کے اپنے حلقۂ انتخاب سے دی ہیں جہاں انہوں نے اپنے کارکنوں کے ہاتھ تھانے چوکی کاس نظام دے کر مخالفین کے لئے انصاف کی راہ بند کی ہوئی ہے اب انہی چوہدری نثار علی خان صاحب کے ماتحت کام کرنے والے افسران پر مشتمل انوسٹی گیشن ٹیم کیسے شفاف انکوائری کرے گی یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں