ہمارے گاؤں میں 70،80 کی دہائی کا دور ہماری دیہی ثقافت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ایک سنہری دور تھا جس میں دیہاتی ثقافت کے رنگ جھلکتے تھے اس دور میں آج کے دور کی نسبت خواتین سمارٹ اور بڑی جفاکش تھیں گھریلو امور کی انجام دہی کیساتھ مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں باڑی میں انکا پورا ہاتھ بٹاتی تھیں اس دور کی عورت حقیقی ظاہری شکل و صورت پر انحصار کرتی تھی سرخی پوڈر اور بناؤ سنگھار پر زیادہ توجہ نہ تھی
کیونکہ اس دور میں بیوٹی پارلرز کا رواج نہیں تھا موجودہ دور میں تو نت نئے فیشن کی برمار اور جدید کاسمیٹک کی ایجاد سے خواتین کے حقیقی حسن و جمال متاثر ہوا ہے اب شادی کا فنگشن ہو یا کوئی اور خوشی کا موقع خواتین سب سے پہلے بازاروں میں جگہ جگہ قائم بیوٹی پارلر کا رخ کرتی ہیں اور اپنے وقتی بناؤ سنگھار پر کثیر پیسہ خرچ کرتی ہیں موجودہ وقت کی طرح اس دور میں نوجوان لڑکیاں اور ماوں بہنوں کا بازار آنا جانا نہ ہونے کے برابر تھا،اج کل تو بازاروں میں خواتین کا رش لگا رہتا ہے
اس دور میں خواتین سادہ کپڑے پہنتی خواتین اور لڑکیاں اپنے بناؤ سنگھار کیلئے چوڑیوں پراندہ اور سرمے دنداسے کو ترجیح دیتی لڑکیاں اپنی سہیلیوں کے ہمراہ روزمرہ کام کاج اور پیدل سفر اور گپ شپ کے دوران دنداسے سے اپنے دانت صاف کر لیتی تھی جس سے دانت بھی موتیوں کی طرح چمکتے بلکہ وقت کی بھی بچت ہوجایا کرتی تھی دنداسے کے استعمال سے دانت رنگین اور موتیوں کی طرح چمک اٹھتے تھے
کیونکہ اس دور میں دنداسہ موجودہ ٹوتھ پیسٹ تھا اور دانتوں کی صفائی کا رواج بھی یہی تھا خواتین کے بناؤ سنگھار میں پراندہ اور چوڑیاں بنیادی اہمیت کی حامل تھیں سرخی پاوڈر کا زیادہ رواج نہیں تھا ونگاں بیچنے والی ونگیاری گاؤں محلے کی گلی کوچوں میں گھوم پھر کر یہ آوازیں لگایا کرتی تھیں کڑیوں ونگاں چڑھا لو پراندے لے لو ونگاں بیچنے اور چڑھانے والی کو ونگیاری کے نام سے پکارا جاتا تھا
وہ گلی کوچوں میں صدا لگاتی جاتی تھی رنگ برنگی ونگاں چڑھا لو کڑیو اس کے ٹوکرے میں کچ میں ہر رنگ اور سائز کی چوڑیاں رکھی ہوتی تھیں نوجوان لڑکیاں جب ونگیاری کی آواز سنتی تو اسے چار دیواری سے جھانک کر گیٹ کے باہر یا گھر کے اندر بلا لیتی محلے کی ساری کڑیاں اپنی ماؤں کے ہمراہ اکٹھی ہو کر ونگیاری کے ارد گرد بیٹھ جاتیں اور اپنی اپنی پسند کے رنگوں والی چوڑیاں خرید لیتی چوڑا عموماً درجن یعنی 12 ونگوں کا ہوتا تھا۔
کئی کڑیاں دونوں کلائیوں میں چھ چھ ونگاں چڑھا لیتی اور چوڑیاں کھڑکا کر ایک دوسرے کو دکھاتی کہ ونگیں کیسی لگ رہی ہیں ونگیاری ہر لڑکی کے کلائی کا ناپ لے کر کہتی کہ یہ آپ کے ناپ کی ہیں رنگ پسند کریں لڑکیاں رنگ پسند کرتیں اور ونگیاری بڑی مہارت سے پورا چوڑا چڑھا دیتی تھی اگر کسی لڑکی کی کلائی موٹی ہوتی تو اس دوران چوڑیاں چڑھاتے وقت ونگ ٹوٹ بھی جایا کرتی تھیں مگر بعض دفعہ اگر کلائی بڑے سائز کی ہوتی تو سرسوں کا تیل وغیرہ لگا کر ونگیاری بنگاں چڑھا دیتی تھی
کئی دفعہ چوڑیاں چڑھاتے چڑھاتے اگر چند چوڑیاں ٹوٹ بھی جاتیں تو ونگیاری انکا حساب کتاب نہیں کرتی تھی کئی لڑکیاں اپنے کپڑوں سے میچ کر کے ونگاں چڑھاتی کئی لڑکیاں سات رنگوں کا پورا 12 ونگوں والا چوڑا چڑھا لیتی تھیں مختلف رنگوں کے کڑے بھی ہوتے تھے زیادہ تر کالے کالے کڑوں کا رواج تھا محلے کی ساری کڑیاں ونگیارن کے ارد گرد گھیرا بنا کر بیٹھ جاتیں اور اپنی اپنی مرضی کے رنگ رنگیلے چوڑے چڑا لیتیں۔ چھوٹی بچیوں کے لئے بھی سائیز موجود ہوتے اپنی چھوٹی بہنوں کو بھی رنگ کی مناسبت سے چوڑیاں کڑے چڑھاتی تھیں
اگر کوئی خوبصورت بچی ہے تو نظر نہ لگنے کے لئے کالے کڑے پہنایا کرتی تھیں کئی لڑکیاں اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی نظر بد سے بچانے کیلیے کالا کڑا چڑھا لیتیں تھیں چونکہ اس دور میں میک اپ کٹ یا بیوٹی پارلرز کی سہولت میسر نہ تھی خواتین اور لڑکیاں شادی بیاہ یا عید وغیرہ کے موقعہ پر گھر پر ہی تیار ہوا کرتی تھیں سرما دنداسہ ہی میک اپ تھا اور ہاں پراندہ بھی پوٹھواری ثقافت کا ایک خوبصورت امتزاج تھا لڑکیاں اپنیلمبے بالوں میں لال یا کالا پراندہ بڑے سٹائل سے لگاتی تھیں اور دونوں طرف بکھرے بالوں کو قابو کرنے کے لئے رنگ برنگے ہر سٹائل کے کلپ بھی لگائے جاتے تھے
،لڑکیوں میں کان چھید کرا کر بالیاں ڈالنے اور ناک میں نتھڑی یا تیلہ ڈالنے کا بھی رواج تھاجس کو لونگ کہتے ہیں اس دور میں میڈم مسرت نذیر کا گانا پچھے پچھے اوندا میری چال وے نا آئی،چیرے والیا ویکھدا آئی وے میرا لونگ گواچا
نگاہ ماردا آئی وے میرا لونگ گواچا بھی بڑا ہٹ تھا۔