302

وقت ایک عظیم نعمت

پروفیسر محمد حسین
ایمان کے بعد سب سے قیمتی نعمت وقت کا سرمایہ ہے اس کی دینوی و دینی اور اخروی کامیابی اور سعادت کا انحصار اس کے محتاط اور درست استعمال اور اس کے ایک لمحہ سے بھی غافل نہ رہنے پر ہے کیوں کہ ایک لمحہ کی غفلت سے منزل صدیوں دور ہو سکتی ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وقت کی قدروقیمت اور اس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے فجر عصر دن رات گویا اللہ نے زمانے کی مختلف کیفیات کی قسم کھائی ہے ان میں سے ہر کام زبردست اہمیت کا حامل ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو کبھی تم نے سوچا اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے کیا تم سنتے نہیں ہو ان سے کہو کبھی تم نے غور کیا اگراللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سواکون سا معبودہے جو تمہیں رات لا دے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو؟ یہ تنوع نہ ہوتا تو زندگی کس قدر بے کیف ہوتی لہذا اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت کی قدر کر ورنہ کفر ان نعمت کا نتیجہ ابدی خسران ہو گا اللہ تعالیٰ نے انسان کو طبعی عمر الغنی دی ہے کہ وہ اس کی قدرو قیمت کر کے اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزار دے ورنہ درازی عمر اس کے خلاف حجت بنے گی بے مصرف گزرے ہوئے وقت کی تلافی کسی طرح بھی ممکن نہیں حضور ؐ اقدس نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکا ر ہیں ایک صحت اور دوسری فراغت اکثر لوگ صحت اور فراغت سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ نامناسب اور ناموزوں جگہ میں ان کو صرف کردیتے ہیں پھر یہ دونوں چیزیں ان کے حق میں وبال بن جاتی ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان تندرست توہوتا ہے مگر معاش یا دیگر کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے فارغ نہیں ہوتا اور کبھی معاش کی فکر سے تو مستثنیٰ ہوتا ہے لیکن تندرست نہیں ہوتا اور جب دونوں چیزیں جمع ہوجاتی ہیں تو اطاعت الہیٰ میں سستی کرنے لگتا ہے دنیا آخرت کی کھیتی ہے تجارت تو یہاں ہوتی ہے جس کا نفع آخرت میں ظاہر ہوگا لہذا جو شخص اپنی صحت اور فراغت کو اللہ کی راہ میں اس کی اطاعت میں صرف کرے وہ تو قابل رشک کہلائے گا اور جوا للہ کی نافرمانی میں خرچ کرے گا وہ گھاٹے والا سمجھا جائے گا کیوں کہ فراغت کے پیچھے مشغولیت اور صحت کے بعد بیماری آتی ہے اور اگر بیماری نہ بھی آئے توا یک بڑھاپا ہی کافی ہے اس لیے صحت اورفراغت کے سرمایہ کو خوب دیکھ بھال کر کے سچائی اور مہارت سے استعمال کریں ایسے سعادت مند اور خوش بخت لوگوں سے جنت میں کہا جائے گا کہ مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں کیوں کہ وہ دنیا میں آخرت سے غافل نہ تھا اس کو اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس تھا ہر جوانی کے بعد بڑھاپا آئے گا اس لیے جوانی میں اپنے اوقات اللہ کی اطاعت میں لگاو ورنہ سٹھیا دینے والا بڑھاپا تمہارا منتظر ہو گا اور اس وقت کوئی کام کرنا چاہو گے توبھی نہیں کر پاؤ گئے کمال یہ نہیں کہ جب نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت اور جب گناہ کرنے کی طاقت ہی نہ رہی تو گناہ سے بچ گئے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بڑھاپے میں ظالم بھیڑیا بھی پرہیز گار بن جاتا ہے اصل خوبی یہ ہے کہ جوانی میں طاقت موجود ہو گناہ کرنے کا سامان موجود ہو گناہ کرنے کا جذبہ موجود ہو اس وقت اگر کوئی انسان گناہ سے بچ جائے تو یہ شیوہ پیغمبری ہے نعمت صحت میں غلبہ اسلام کے لیے توانائیاں لگا دو اور کچھ پتہ نہیں کہ کس وقت بیماری آجائے کیونکہ بیماری پہلے نوٹس دے کر تو نہیں آتی وہ اچھے خاصے تندرست انسان پر حملہ آور ہو کر اتنا ناتواں کر دیتی ہے کہ چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہیں رہتی اس لیے وقت کونہ ٹالو جو بھی نیکی کرنے کا موقع ملے اس سے بھرپور فائدہ اٹھاو اسی طرح فرصت کے جو لمحات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں یہ مت سمجھ کہ یہ ہمیشہ باقی رہیں گے کبھی نہ کبھی مشغولیت ضرور آئے گی اس فرصت کو سمجھ کر سب سے اعلیٰ درجہ کی نیکی میں لگا دو ورنہ وقت کی دور دھاری تلوار تم کو کاٹ کر پھینک دے گی کیوں کہ جس نے برف کی طرح تیزی سے پگھلنے والے وقت کو ضائع کیا اور اسے حق کی خاطر استعمال نہیں کیا تویہ خود بخود اس کے ازلی و ابدی دشمن شیطان لعین کے حق میں استعمال ہوگا حضورؐ اکرم نے فرمایا کہ ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلا ئی کر سکتا ہو تو کر لے آج کے بعد میں پھر واپس نہیں لوٹوں گا ‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ دعا کاکیا کرتے تھے کہ اے اللہ ہمیں شدت میں نہ چھوڑانا اور ہمیں غفلت کی حالت میں نہ پکڑتا اور اہم کو ٖغفلت کرنے والوں میں سے نہ بنانا ‘حضرت ابوبکر صدیقؓ کا قول ہے کہ انسان کو اپنی عمر کے اس دن پر آنسو بہانے چاہیں جو یونہی گزر جائے اور اس میں اس نے کوئی نیکی نہ کی ہو ‘ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ طبیعت پر یہ بات گراں گزرتی ہے جب میں کسی کو بالکل فارغ دیکھوں کہ نہ وہ دین کے کام میں مشغول ہو اور نہ دنیا کے ‘ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سونے سے بھی زیادہ قیمتی وقت کی قدر کرنی چاہیے کیوں کہ سونا کھو جانے کے بعد دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں