وطن عزیز میں دہشت گردی کی نئی لہر یہ بتاتی ہے کہ دشمن اب تعلیمی اور عسکری تربیت کے مراکز کو نشانہ بنا رہا ہے۔

اسلام آباد(اویس الحق سے)ان دنوں ملک میں دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوئے ہیں، پہلے میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کچہری کے باہر خود کش دھماکے کے نتیجے میں بارہ افراد جاں بحق جب کہ 36 افراد زخمی ہوگئے جب کہ دوسرے واقعے میں وانا کیڈٹ کالج پر حملہ آور تمام خوارج جہنم واصل ہوگئے، تمام 650 طلبہ اساتذہ کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا۔ اس وقت کالج کی بلڈنگ کو بارودی سرنگوں کے خطرے کی وجہ سے کلیئر کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد کی کچہری کے باہر ہونے والا خودکش دھماکا بظاہر ایک دہشت گردی کا واقعہ لگتا ہے مگر اس کے اثرات محض بارہ قیمتی جانوں کے ضیاع اور درجنوں کے زخمی ہونے تک محدود نہیں۔ یہ واقعہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں، عدلیہ کے دروازے پر ہوا جہاں انصاف اور قانون کی علامتیں موجود ہیں۔

اس جگہ پر حملہ دراصل ریاست کے ستونوں پر حملہ تھا۔ دہشت گردوں نے یہ پیغام دیا کہ ان کی دسترس اب مرکز تک ہے، وہ عدالت، حکومت، قانون اور عوامی تحفظ کے بیچ میں گھس سکتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف جسمانی نقصان نہیں بلکہ خوف کا ایسا سایہ ڈالنا ہے جو شہریوں کے ذہنوں میں دیرپا بیٹھ جائے۔ یہی دہشت گردی کا اصل ہتھیار ہے خوف، عدم یقین اور بداعتمادی۔

دوسری طرف، وانا کیڈٹ کالج پر حملے کا واقعہ، جہاں تمام طلبہ و اساتذہ کو بحفاظت نکالا گیا مگر عمارت کو بارودی سرنگوں کے خطرے کی بنا پرکلیئر کیا جا رہا ہے، ایک مختلف مگر اتنا ہی خطرناک پیغام رکھتا ہے۔ دہشت گردی کا یہ انداز بتاتا ہے کہ دشمن اب تعلیمی اور عسکری تربیت کے مراکز کو نشانہ بنا رہا ہے۔

کیڈٹ کالج پاکستان کے مستقبل کے محافظوں کی نرسری ہے۔ ان اداروں پر حملہ دراصل پاکستان کے کل پر حملہ ہے۔ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ یہ ملک اپنی نئی نسل کو خوف میں مبتلا کرے۔ دہشت گردی کے اس دور میں یہ پہلو سب سے تشویشناک ہے کہ دشمن نے اپنی حکمت عملی کو نفسیاتی جنگ میں بدل دیا ہے، جہاں مقصد صرف قتل نہیں بلکہ امید کا قتل ہے۔

پاکستانی ریاست اور عوام دونوں اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دہشت گردی کی یہ لہر اچانک نہیں اٹھی۔ اس کے پیچھے وہی پرانے زخم، ناتمام جنگیں اور غیر متوازن تعلقات ہیں جن کا محور افغانستان رہا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال نے پاکستان کے لیے نئے خطرات پیدا کیے ہیں۔

افغانستان نے اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے دی ہے اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ وہ بھارت کی پراکسی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بھارت، جو افغانستان میں برسوں سے سرمایہ کاری اور سیاسی اثر و رسوخ پیدا کرتا آیا ہے، اب وہاں سے پاکستان کے خلاف ایک خاموش مگر خطرناک محاذ چلا رہا ہے۔

بھارت کی اس پراکسی پالیسی کا مقصد پاکستان کو عسکری میدان میں الجھائے رکھنا، اس کی معیشت کو کمزور کرنا اور اس کے اندرونی استحکام کو کھوکھلا کرنا ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ براہ راست جنگ ممکن نہیں، اس لیے وہ غیر ریاستی عناصر، میڈیا نیٹ ورکس اور سفارتی دباؤ کے ذریعے پاکستان کے اندر اضطراب پیدا کرتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت، چاہے دانستہ ہو یا مجبوری کے تحت، اس کھیل میں حصہ بن چکی ہے۔