بابر اورنگزیب/کسی بھی علاقے یا گاوں میں جو بڑا ہوتا ہے اسکی ایک اپنی پہچان اور رعب ہوتا ہے اور وہ علاقے کا چوہدری کہلاتا ہے یہی وجہ ہوتی کہ وہ چوہدری صاحب سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جاتے ہیں اگر ہم اسکو سیاست میں دیکھیں خاص طور پر راولپنڈی کی سیاست میں تو مسلم لیگ ن کے دو چوہدری بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں جو مسلم لیگ ن کے راولپنڈی میں کرتا دھرتا سمجھے جاتے تھے جی ہاں ایک سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور دوسرے سینیٹر چوہدری تنویر علی خان یہ دونوں چوہدری راولپنڈی کی سیاست کا بہت بڑا نام ہیں خاص طور پر مسلم لیگ ن کے تمام فیصلوں میں انکا کردار ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے دونوں کا آپس میں یارانہ بھی ہے جس کا اندازہ ہم 2018 کے الیکشن سے لگا سکتے ہیں چوہدری نثار علی خان نے جب مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کر کے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو انکے مدمقابل سینیٹر چوہدری تنویر علی خان کا نام سامنے آنے لگا کہ دونوں چوہدری آمنے سامنے ہوں گے مگر چوہدری تنویر علی خان نے الیکشن لڑنے سے معذرت کر لی جس کے بعد انجینئر قمر الاسلام راجہ نے مدمقابل آنے کا اعلان کیا اور یہ یارانہ صرف حلقہ این اے 59 تک نہیںرہا بلکہ پی پی 12 میں چوہدری تنویر گروپ نے اپنا کوئی بھی امیدوار چوہدری نثار علی خان کے مدمقابل نہیں کھڑا کیا حالانکہ یہ حلقہ یہاں سے دو بار ایم پی اے رہنے والے چوہدری سرفراز افضل کا بنتا تھا مگر انھوں نے یہاں سے کاغذات جمع کروانے کے بجائے پی پی 13 سے کروائے اور شائد پاکستان کا اور خاص طور پر پنجاب کا واحد ایسا حلقہ پی پی 12 ہوگا جہاں پر مسلم لیگ ن کی طرف سے صرف ایک امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے اور وہ فیصل قیوم ملک ہے جبکہ باقی جگہوں یا حلقوں میں ایک ایک سیٹ پر کئی کئی امیدواروں نے اپنے کاغذات جمع کروائے اب جب الیکشن کو دو سال گذر گئے ہیں ایک چوہدری نثار علی خان تو مسلم لیگ ن سے الگ ہوکر کئی گوشہ تنہائی میں چلے گئے ہیں کبھی کبھی منظر پر آتے ہیں مگر اب وہ سیاسی طور پر اتنے متحرک نہیںرہے تو وہی پر دوسرے چوہدری تنویر علی خان جو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں اور 2018 کے انتخابات میں انکی فیملی سے 3 امیدوار مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر تھے مگر اب انکو بھی مسلم لیک ن نے نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے حالیہ مسلم لیگ ن راولپنڈی کی تنظیم سازی ہوئی جس میں مسلم لیگ ن کے رہنماو¿ں کو عہدے دیے گئے مگر اس سارے عمل میں چوہدری تنویر علی خان گروپ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے کئی ماضی میں انکی فیملی سے ہمیشہ 3 سے 4 امیدوار مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے رہے ہیں مگر اب ایسا کیا ہوا کہ انکو پارٹی نے تنظیم سازی میں بالکل نظر انداز کر دیا ہے اور انکی فیملی کے کسی بھی ممبر کو کوئی بھی راولپنڈی میں عہدہ نہیں دیا گیا بلکہ صدر سمیت دیگر کچھ عہدے دار وہ ہیں جنھوں نے قومی اسمبلی کے الیکشن میں اپنی پارٹی کے بجائے چوہدری نثار علی خان کا ساتھ دیا تھا مگر انکے الیکشن ہارنے کے بعد اعلی قیادت سے ملاقات کر کے انکو اعتماد میں لے کر دوبارہ پارٹی میں شامل ہوگئے تھے شائد یہی وجہ کے انکو عہدوں سے نواز دیا گیا ہے تو دوسری طرف جھنڈا چچی کے چوہدری کو نظر انداز کرنے اور تنظیم سازی میں شامل نہ کرنے کی اصل وجہ چوہدری نثار علی خان کا ساتھ دینا تو نہیں اگر ایسا ہے تو اب اس سارے معاملے پر کیا چوہدری تنویر علی خان پارٹی کے سامنے اپنے تحفظات رکھے گے یا پھر اس سارے معاملے سے لاتعلق ہی رہے گے یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔
217