138

نفاذٍ اسلام سے ہی امریکی ایوان کانپیں گے

اج کے اس ترقی یافتہ عہدٍ جدید میں بھی کروڑوں پاکستانی خطٍ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، بھوک، بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی نے تو جینا ہی محال کر دیا ہے، جیسے پورا پاکستان رو رہا ہے عام انسان رو رہا ہے مزدور رو رہا ہے اور کسان رو رہا ہے۔ کبھی یہاں چینی کا اور کبھی آٹے کا بحران بنایا جاتا ہے اور پھر فرمایا جاتا ہے

کہ میں اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا اور اب یہ کسان کے کپڑے کھینچ رہے ہیں۔ گندم سکینڈل سمیت کتنے کالے کرتوت ہیں ہماری وفاقی اور صوبائی سرکاروں کے، باالفاظ لبرل بے بی بلاول مودی کے یاروں کے، جمہوریت و سیاست کے ان سالاروں کے جنہوں نے زراعت کا بیڑا ہی غرق کر دیا ہے، ماضی کے اور موجودہ مافیا نے اس اشرافیہ نے ملک برباد کر دیا ہے۔ محرومیوں، اداسیوں اور مایوسیوں نے ہر انسان کو مار دیا ہے، مزدور، غریب اور کسان کو مار دیا ہے۔

پنجاب میں گندم کی روز بروز کم ہوتی قیمت کے سبب فلور ملز بڑی مقدار میں گندم خرید کر سٹاک کرنے سے گریزاں ہیں۔ اب کسان بیچارہ غم کا مارا کہاں جائے اور کیا کرے۔ کوئی امید نظر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ صد افسوس کہ حکمران بس اپنی اپنی جیبیں ہی بھرتے رہے اور ملک و قوم کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ یہ مگرمچھ پورا پاکستان کھا گئے ہیں

مگر پھر بھی بھوکے ہیں، ابھی تک ان بنارسی ٹھگوں کا پیٹ نہیں بھرا جو شاید قبر کی مٹی سے ہی بھرے گا۔ برادرم کلاسرا کہتے ہیں کہ ”جس گندم امپورٹ سمری کو پچھلے سال اپنی حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے وزیراعظم شہباز شریف نے آٹھ اگست 2023 کو منظور نہیں کیا تھا اسے نگران حکومت کے تین اہم وزیروں نے اکتوبر میں نگران وزیراعظم
انوار الحق کاکڑ سے منظور کرا کے پندرہ مارچ 2024 تک پاکستان میں پچاس سے زا?د گندم کے لدے ہوئے جہاز منگوا لیے۔ جو کام پاسکو / ٹی سی پی کا تھا وہ لاہور کراچی کی بڑی پارٹیوں کو کس نے دلوا دیا۔

دس لاکھ ٹن گندم منگوانے کی بجائے تیس لاکھ ٹن گندم کس نے اور کیوں منگوا لی تھی پھر اسٹیٹ بینک سے ڈالروں کا بندبست کس نے اور کیسے کرایا“۔ اس ضمن میں محترم رؤف کلاسرا و دیگر کے ایم انکشافات ریکارڈ پر ہیں، یہ پاکستانی کسانوں کی تباہی کی ایک دردناک کہانی ہے جس میں بڑے بڑے کردار ہیں، نہ صرف وزیروں مشیروں بلکہ بڑے بزنس مینوں اور طاقتور بیوروکریٹس کا گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے جنہوں نے کسانوں کو تقریبا 365 سے زائد ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔

ہم بحیثیت مسلم تنزلی کی آخری کھائی میں جا پہنچے ہیں۔ کوئی شرم رہی ہے نہ حیا۔ سلطان العارفین میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ ہے کی معروف سیف الملوکی بحر میں میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ:
دغا دولت کم نہ دیسی نہ کر بندیا چھوڑ
پُل صراط آسانی ہوسی حق دروازہ لوڑ
کسان اتحاد کا کہنا ہے کہ زراعت کا علامتی جنازہ نکالیں گے۔ گندم سکینڈل کی وجہ سے کسانوں کا اربوں کا نقصان ہوا ہے، چھ کروڑ کسانوں کو ذبح کر دیا گیا، گندم کی درآمد پر ایک ارب ڈالر کا زر مبادلہ ضائع کیا گیا، کیا اوپر بیٹھے لوگوں کو علم نہیں تھا کہ گندم کی نئی فصل آرہی ہے۔ کسان ملک گیر احتجاج کا اعلان کر رہے ہیں میرے پاکستان میں شاید ہی کوئی مردٍ مجاہد ایسا ہوگا جو اُمتٍ مسلمہ کے مسائل و معاملات کو سامنے رکھ کر سوچے اور صدائے حق سر بلند فرمائے

جیسے برٍصغیر پاک و ہند میں کبھی حضرت مودودی جی رحمتہ اللہ نے فرمایا تھا کہ ”کفر کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ آپ مسجدوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں، نمازیں پڑھیں یا لمبے لمبے اذکار کریں، ممبروں پر فضائل سنائیں یا درسٍ قرآن و حدیث میں مشغول ہو جائیں، رنگ برنگی پگڑیاں پہنیں یا ماتموں میلادوں کے جلوس نکالیں، جمعراتیں شبراتیں منائیں یا محافلٍ حمد و نعت کریں۔ کفر چاہتا ہے کہ آپ یہ سب شوق سے کریں مگر نظامٍ کفر اور الحاد کے ماتحت رہ کر کریں اور اللہ کے نظام کے نفاذ کی بات نہ کریں۔ آپ خانقاہیں بنائیں عرس منائیں تبلیغی اجتماعات کریں مگر اللہ کے نظام کی بالادستی کی بات نہ کریں، کفر کو ہی حکومت کا اختیار دیں اور اسلام کو محکوم ہی رہنے دیں۔ کفر کے ایوانوں میں زلزلہ تو تب آتا ہے جب مسلم بدر و حنین کی سنت پر عمل کرتا ہے۔

ایسا کوئی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت نہیں جو وقت کے فرعون اور ابو جہل سے نہ ٹکرائے“۔ بلا شبہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے دربارٍ فرعون میں جب برحق تقریر فرمائی تو تب کفر کانپا تھا خدا خدا کر کے اور کہا تھا کہ اے موسیٰ علیہ السلام آپ ہمارے اقتدار کو پلٹنا چاہتے ہیں کیا آپ اس نظام کو ہی لپیٹنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت فرنگی سے آزادی ملنے کے بعد بھی ہمارے کرتا دھرتا ”سیانے“ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں، بھاری بیرونی سودی قرضوں کے شکنجے میں کسے ہیں اور یہ سب عالمی سامراج کی مٹھی میں ہیں، ان کا ریموٹ کنٹرول ہی امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ بزدلی و ذلالت کی انتہا ہے۔ چی گویرا نے کہا تھا کہ میں نے قبرستانوں میں ان سالاروں کی قبریں بھی دیکھی ہیں جو اپنے حق کے لیے اس لیے نہیں لڑے کہ کہیں وہ مارے ہی نہ جائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہی ہم سارے مل بیٹھیں اور صراطٍ مستقیم کو پکڑیں۔ آخر میں میرا اپنا ہی ایک اور شعر ہے کہ:
دسیا سوہنے ربٍ عالم ازلی سچ دستور
پڑھو سُچے حرف قرآنی نقطہ نقطہ نور

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں