امجد محمود ستی‘ پنڈی پوسٹ
سابقہ ادوار میں ہر جماعت جو حکومت میں آئی اس کی روایت رہی ہے کہ اس نے عوام کو لالی پاپ دیا اور سہانے خواب دیکھائے اور عملی اقدامات سے گریز کیا عوام نے سابقہ ادوار میں حکومت میں آنیوالی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو موجودہ انتخابات میں لارے لپے کی سیاست کرنے کی پاداش میں ووٹ کی پرچی سے شکست دی اور پاکستان تحریک انصاف جو کہ تبدیلی کی دعویدار تھی اسے موقع دیا تاکہ ان کے مسائل میں کمی واقع ہو سکے ۔وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے انقلابی اقدامات سے ملک میں تبدیلی لانے کی خاطر خواہ کوشش بھی کی مگر ان کی نالائق اور نکھٹو ٹیم ان کی تبدیلی کے سفر میں ساتھ نہیں دے رہی فواد چوہدری،فیاض الحسن اور فیصل واڈا کے احمقانہ بیانات کی وجہ سے آئے روز تحریک انصاف کی جگہ ہنسائی ہو رہی ہے۔سابقہ ادوار میں میٹرو بس پر تحریک انصاف کی جانب سے تنقید کی گئی مگر خود تحریک انصاف نے بی آر ٹی ایس پروجیکٹ جو 29اکتوبر 2017ء میں شروع کیا تھاابھی تک مکمل نہیں ہو پا رہا جس کی وجہ سے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام کی وزیراعلیٰ کے پی کے نے سرزنش کی آر بی ٹی ایس پروجیکٹ جون2019ء تک بھی مکمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔پورے ملک کی طرح این اے57میں بھی پی ٹی آئی کی کارکردگی کوئی خاطر خواہ نہیں اور باقاعدہ طور پرمنصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں حلقہ سے منتخب ہونیوالے ایم این اے صرف ٹی وی ٹاک شوز تک محدود ہیں اور وزارت کے حصول کیلئے دن رات پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی قصیدہ گوئی میں مصروف ہیں مگر پھر بھی وزارت انہیں ملتی دیکھائی نہیں دیتی دوسری طرف پی ٹی آئی ایم این اے کی ناقص پالیسیوں کے باعث انتخابات کے صرف چھ ماہ بعد پارٹی میں دھڑے بندیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔جن کارکنوں اور حلقہ کی بااثر شخصیات کی بدولت پارٹی نے اس حلقہ سے ایم این اے شپ اور ایم پی اے شپ حاصل کی ان کو مکمل طور پر کھڈے لائن لگا دیاگیا ہے جس کی وجہ سے کارکن اور بااثر شخصیات شدید قرب کا شکار ہیں۔این اے57اور پی پی6 میں ایم این اے اور ایم پی اے کی طرف سے خلاف ضابطہ مختلف اداروں کوکنٹرول کرنے کیلئے ایڈوائزری کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جن کی قانون کوئی اجازت نہیں دیتا ۔ایم این اے اور ایم پی اے کی طرف سے ایڈوائزی کمیٹیاں بنانے کے بعد سرکاری اداروں کے معاملات بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں اور پی ٹی آئی کارکنان اداروں میں بے جا مداخلت کررہے ہیں جس کے باعث سرکاری ملازمین میں بھی شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق صوبائی وزیر اشفاق سرور کو عوام سے عدم رابطوں ،یونین کونسلز اور بلک واٹر سپلائی سکیم کو بحال نہ کروانے پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور موجودہ ایم این اے صداقت علی عباسی اور ایم پی اے میجر (ر)لطاسب ستی نے انہی ایشوز پر سیاست بھی کی مگر اقتدار میں آنے کے بعد بالخصوص ایم این اے کی توجہ عوامی مسائل سے مکمل طور پر ہٹ چکی ہے۔چوہدری نثار علی خان جن کا سابقہ ادوار میں پاکستان کی سیاست میں ایک اہم کردار حاصل تھا اب دن بدن قصہ پارینہ بنتے جارہے ہیں گزشتہ الیکشن میں سابق وزیر داخلہ نے چار نشستوں پر الیکشن لڑا جن میں سے وہ قومی اسمبلی کی دونوں جبکہ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر شکست کھا گئے تھے اور صرف پی پی10کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے مگر فتح کے بعد چوہدری نثار علی خان جو کہ قومی سطح کے سیاستدان تھے انہوں نے آج تک صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر حلف نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے حلقہ کی عوام کے مسائل کا حل تو دور کی بات حلقہ کی عوام اضطراب کا شکار ہیں کیونکہ ان کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی موجود نہیں جس پر چوہدری نثار کے حلف نہ اٹھانے پر حلقہ کی سیاسی شخصیت کی طرف سے ان کے خلاف رٹ بھی دائر کی جا چکی ہے ۔چوہدری نثار علی خان کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصہ سے میاں نواز شریف سے ملاقات کیلئے مشترکہ دوستوں کے ذریعے رابطوں کی کوشش کی جارہی ہے مگر میاں نواز شریف ان سے کسی بھی طور پر ملاقات کرنے کو تیار نہیں جس کے بعد چوہدری نثار علی خان کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے اور ان کا سیاسی مستقبل دن بدن زوال کی جانب گامزن ہے۔
76