وزیر اعظم عمران خان نے ابتدائی ایام میں کہا تھا کہ جو وزیر ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا اسے تبدیل کر دوں گا۔ پھر انہوں نے تبدیلی کا عمل شروع کر دیا اور وفاق میں بہت سی اہم وزارتوں پر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بہت سے وزراء سے وزارتیں لے کر دوسروں کو سونپ دیں اور جن سے وزارتیں لی تھیں ان میں سے اکثر کو دوسری وزارتیں دے دی گئیں۔ وزارتوں میں تبدیلی کا یہ عمل کئی بار ہو چکا ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے مسلسل جاری ہے۔ جیسے حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے کابینہ میں ردوبدل کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر حماد اظہر سے وزارت خزانہ کا قلمدان لے کر توانائی کی وزارت سونپ دی جبکہ عمر ایوب سے توانائی کا چارج واپس لے کر اقتصادی امور کی وزارت انہیں سونپ دی ہے۔ وفاقی وزیر خسروبختیار کو وزیر صنعت و پیداوار بنا دیا جبکہ شوکت ترین کو وزیرخزانہ بنا دیا گیا ہے۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو اطلاعات اور وزیر اطلاعات شبلی فرازکو سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت دے دی گئی ہے۔یہ وفاقی کابینہ میں وہ تبدیلی تھی جو وزراء کی نااہلی کی وجہ سے ہوئی۔اب غور طلب بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے کہا جو وزیر ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا اسے تبدیل کر دوں گا تو مطلب یہ ہوا کہ جنہیں تبدیل کیا گیا وہ ملک کے لیے فائدہ مند نہیں تھے کیونکہ اگر وہ ملک کے لیے فائدہ مند ہوتے تو انہیں ہٹایا نہ جاتا۔ تو جب انہیں ہٹایا گیا تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ ملک کے لیے فائدہ مند نہ تھے اور واقعی فائدہ مند نہ تھے کیونکہ ان کی گزشتہ اڑھائی سال کی کارکردگی سے واضح ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنی نااہلی کی بنا پر ملک کو کس دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ وزراء نے اڑھائی سالوں میں کچھ نہیں کیا تمام وزراء ناکام ہو چکے ہیں۔ملک میں مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، معیشت دن بدن ابتر ہوتی جا رہی ہے حکومت کے پاس ان سب باتوں کا ایک ہی جواب ہے کہ گزشتہ حکومت کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔ چلو پہلے دو، تین مہینے تم گزشتہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہراؤ تو کچھ سمجھ بھی آتی ہے مگر اڑھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی گزشتہ حکومت پر ذمہ داری ڈالنا سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ کسی میں کام کرنے کی لگن اور ڈھنگ ہوتو اس کے لیے اڑھائی سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ پھر وہ وقت آگیا جب عمران خان نے ملک کے لیے بے فائدہ وزراء کو ہٹا دیا مگر یہاں بھی ایک عجیب سی بات دیکھی گئی کہ تمام وزراء کو ان کی ناقص کارکردگی کی بنا پر ایک وزارت سے ہٹایاجاتا ہے مگر ہٹانے کے بعد دوسری وزارت دے دی جاتی ہے۔ کیا عجیب فلسفہ ہے کہ جو وزیر ایک وزارت کے لیے نا اہل تھا وہ دوسری کے لیے اہل ہو گیا۔ وزیر اعظم صاحب! آپ نے کہا تھا جو ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا، جب یہ ملک کے فائدہ مند نہیں تھے تو انہیں دوسری وزارتیں کیوں دی گئیں؟ جو وزیر اطلاعات و نشریات کے لیے نا اہل تھا تو وہ اچانک کیسے سائنسدان بن گیا کہ اسے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت دے دی گئی؟ ان وزراء کی قابلیت کو دیکھے بنا ہی ایک وزارت سے ہٹا کر دوسری کا قلمدان تھما دیا جاتا ہے۔ پھر وہ ان محکموں کا جو بیڑہ غرق کرتے ہیں وہ سب کے سامنے ہی ہے۔ کیسے ہر ادارہ ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جارہا ہے؟ ادارے ملک کے لیے فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ہر ادار ہ ملکی خزانے پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ عوام کو چہروں کی نہیں نظام کی تبدیلی چاہیے آپ تبدیلی کا نعرہ لگا کر روزانہ وزارتوں میں تبدیلی لے آتے ہیں یہ کیسی تبدیلی ہے؟ سب کچھ پھر وہیں کا وہیں ہوتا ہے اس سے عوام کو کیا غرض کہ کس محکمے کا چارج کس وزیر نے سنبھال رکھا ہے؟ انہیں تو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے سے غرض ہے، انہیں سستی بجلی اور گیس چاہیے، انہیں اشیاء خوردونوش کم قیمت پر چاہئیں، انہیں روزگار کی ضرورت ہے۔ یہ چیزیں تو آپ دینے میں ناکام رہے کیونکہ آپ نے نااہلوں کی ٹیم بنا رکھی ہے انہیں ہی ایک جگہ سے اٹھاتے ہیں اور دوسری جگہ پر بٹھا دیتے ہیں جس نے ایک محکمہ میں کارکردگی نہیں دکھائی وہ دوسرے میں کیا کر لے گا؟ اگر ان کی کارکردگی بہتر ہے تو ان سے وزارت واپس کیوں لی جاتی ہے، انہیں آرام سے کام کیوں نہیں کرنے دیا جاتا اور اگر کارکردگی اچھی نہیں ہے تو پھر آپ کو کیسے توقع ہوتی ہے کہ یہ دوسرے محکمے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے؟نا اہل نااہل ہی ہوتا ہے، چاہے کسی بھی محکمے میں چلا جائے لہٰذا ان نااہلوں کو یہاں سے اٹھا کر وہاں بٹھانے کی بجائے انہیں یہاں سے اٹھا کر گھر بھیجیں اور ان کی جگہ اہل افراد کو تلاش کر کے یہ ذمہ داریاں سونپیں۔ جو ملک کو قوم کے لیے کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اپنے اپنے کام میں ماہرہوں اور اپنی وزارتوں کی نہیں ملک و قوم کی فکر رکھنے والے ہوں، صرف باتیں نہیں کچھ کام بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، روزانہ پی ڈی ایم اور دیگر جماعتوں کو چور چور اور ناکام قرار دینے کی بجائے اپنی کارکردگی بھی عوام کو بتاتے ہوں۔ اب بھی ایسی ٹیم تیار نہ کی تو پھر اگلے اڑھائی سال آپ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے، آپ کی ساکھ تو جو متاثر ہو گی سو ہو گی اس کے ساتھ ساتھ ملک کا بھی بیڑہ غرق ہو چکا ہو گا۔ لہٰذا عوام کے حال پر ترس کھائیں اور قابل اور با صلاحیت افراد کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا کر ملک و قوم کو تباہی سے بچالیں۔
208