85

میڈیاکے اثرات/مدثر فیاض بھٹی

ٹیکنالوجی کی دوڑ نے د نیا کی شکل کوبدل کررکھ دیاہے جنگ،نیزہ،تلوار،بم دھماکے،ہتھیار یہ سب ٹیکنالوجی کی خوفناک ترین شکلیں ہیں جو اب بھی دنیا میں موجودہیں اوردنیا کو تہہ وبالا کررہی ہیں ساتھ ہی ساتھ طاقتور قوموں کی طرف سے ایک اورایسی جنگ بھی چھڑدی گئی ہے جو بندوق تو نہیں اٹھاتی لیکن پھر بھی بڑی کامیابی سے لڑی جارہی ہے اور یہ جنگ یقینأزیادہ خطرناک ہے کہ یہ قوموں کے نظریات تبدیل کررہی ہے اوریوں مغلوب اورکمزورقوموں کی جڑیں کاٹ رہی ہے اس جنگ نے قوموں کے نظریات ان کی اقدارحتی کہ ان کے اعمال تک بدل دیے ہیں وہی فعل جو قابل اعتراض تھاقابل فخربنتا جا رہا ہے بلکے میں تو کہوں گا کہ اس نے مذہب تک کو نہیں چھوڑاکہ جو افعال مذہب میں قابل اعتراض تھے ان کو یوں عام کر دیاجیسے وہ کبھی قابل اعتراض رہے ہی نہ ہوں اور میڈیا کی دوڑ نے تواگر جغرافیائی سرحدیں نہیں مٹائی تونظریاتی سر حدوں کو ایک ایسا دھچکا ضرور لگا دیا ہے کہ اب تو خوف أتا ہے اور لگتا ہے کہ یہ بھی کوئی دم کی بات ہے اور مٹ جائیں گی اج کل ٹیلیوژن پر جوطوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے اس نے تو معاشرے کو ہلا کے رکھ دیا ہے بناسپتی کے ایک اشتہار کو لیجیے جو رمضان کے مبارک مہینے کے پس منظر میں بنایا گیا ہے اور ماڈلز یہ کہتے نظر اتے ہیں کہ چلو اس میراث کی تلاش میں نکلتے ہیں جو مسلمانوں کی اصل پہچان تھی اور یہ میراث مختلف اسلامی ممالک میں انتہائی مغرب زدہ لباس میں ملبوس خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو دکھا کرپانے کی نوید سنائی جا رہی ہے لباس کسی بھی معاشرے کی اولین پہچان ہے کیونکہ کسی بھی غیر کی نظرسب سے پہلے اس پر پڑتی ہے اور اسلام میں لباس کا مقصدزیب و زینت اور سترپوشی دونوں ہے اور یوں ایک با حیا اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کا مقصدپورا کرنا ہے لیکن ہمارے أج کے ،، مغرب زدہ میڈیا،،نے جہاں اور کئی قومی معاملات میں قومی وقار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں وہاں اپنے لباس کو بھی مذاق بنا کرتارتارکردیا ہے ابھی پچھلے ہی دنوں دودھ کمپنیکے تعاون سے جب ایک نجی چینل نے کچھ پرانی فلموں کی ری میک کی تو پہلے اس کام کی تعریف میں زمین اسمان کے قلابے ملائے گے اور پھر ان کے حوالے سے ایورڈزکی ایک تقریب منعقد کی گئی اس پروگرام کو یقیناشریف خاندانوں نے بندکر دیا ہو گا کیوں کہ جو ناچ گانا اس میں پیش کیا گیاوہ شرافت کی کسی تعریف پرپورا اترتے ہیں اسلام کی اور نہ پاکستانیت کے بلکہ مشرقیت کے بھی نہیں۔پھر تماشائی عورتوں نے جو نیم عریاں لباس پہنے تھے معلوم نہیں وہ کس معاشرے کے عکاس تھے ساڑھی ایک معقول لباس ہے لیکن اس کی تراش خراش کا فائدہ اٹھا کر اس کو خاصے نامعقول طریقے سے پہلے بھی پہنا جاتا تھا اوراب تو انڈین فلموں اور ڈراموں کے زیر اثراس کو بیہودگی کاسمبل بنایا جا رہا ہے اس پروگرام میں خواتین نے جس طرح سے اس لباس کو پہنااس کی کوئی توجہہ بیان کرناشائد ان پہننے والوں کے لیے بھی ممکن نہیں۔ان خواتین کے لباس کے بارے میں مزید مکمل بات کرنے سے مجھے خود اپنی بات ناشائستہ ہو جانے کا خوف ہے اس لیے أئیے لباس سے ذرا ہٹ کرزرا شرکاء کی حرکات وسکنات کا جائیزہ لے لیں تو یہاں سر ایک دفعہ پھرشرم سے جھک جاتے ہیں کہ شرکاء خواتین و مردوں کا ایک دوسرے سے گلے ملنابلکہ بوسہ بھی لے لیناکیا ایک اسلامی نہ سہی مسلمان معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے اور اگر اس بھی أپ نیچے أئیں تو اس کی اجازت تو کوئی مغربی معاشرہ بھی نہیں دیتاتو پھر أخر ہم کس معاشرہ میں رہتے ہیں اور کس احساس کمتری کا شکار ہیں اور أخر ہم دنیا کواپنے بارے میں کون سا تاثر دینا چاہتے ہیں روشن خیال پاکستان اور بے راہ رو پاکستان میں فرق ہونا اور رکھنا بہت ضروری ہے میڈیا معاشرے پر بہت زور دار طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے جس کا ثبوت أج کی نوجوان نسل کا لباس اور طور طریقہ ہے جس پر وہ رنگ غالب أ رہا ہے جو میڈیا پر دکھا یا جا رہا ہے نہ کہ وہ جو ان کے بزرگوں کا تھاتبدیلی نہ تو کوئی بری چیز ہے اور نا اس سے بچاؤ ممکن ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں لیکن اس دوڑ میں اپنے معاشرے اور روایات حتکہ مذہب کا بھی قتل عام کسی بھی طرح رواں نہیں اور اگر میڈیا صرف اپنے اثاثے بڑھانے کی خاطراپنی ریٹنگ میں اضافہ کے لیے ہر چینل دوسرے سے أگے نکلنے کے لیے اخلاقیات کی تمام حدود پار کر رہا ہے اور بڑی أزادی سے کر رہا ہے تو أخر ہماری حکومت کہاں سو رہی ہے اور پمرا کے ذمہ دار کس چیز کی تنخواہ لے رہے ہیں عدالتیں کیوں اس پر خاموش ہیں کیا یہ عام أدمی کی دلچسپی والی بات نہیں ہے ؟یا قو می اہمیت کی نوعیت کا معاملہ نہیں یا پھر ان حرکات سے ہمارے بڑوں کے مفادات پر زد نہیں پڑتی یا ہم نے اپنی کمتر حثیت کو بھی تسلیم کر لیا ہے اور ثقافتی جنگ میں اپنی شکست بھی تہہ دل سے مان لی ہے ہم تو اپنے بچوں کو بھی کارٹون کے نام پر وہ کچھ دکھا رہے ہیں جس کا نہ تو ہمارے معاشرے سے نہ اقدار اور نہ اخلاق سے کوئی تعلق ہے فیشن شو سٹیج پر ہوں تو ان کوایک مخصوص طبقہ ہی دیکھتا ہے لیکن ہمارا میڈیاان بیہودہ ملبوسات کوپورے ملک کے سامنے کر دیتا ہے اور ان کی شان میں جو تعریفی کلمات بولے جاتے ہیں ان کا تو کوئی جواب نہیں اور ہر لباس کو مشرق و مغرب کا حسین امتزاج کہہ کرمعلوم نہیں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بہرحال میڈیا تو یہ سب کر ہی رہا ہے لیکن سب سے بڑی ذمہ داری تو حکومت کی بنتی ہے کہ اگر وہ اس معاملے کوسنجیدگی سے لے تومعاشرے کو دو انتہاؤں میں بٹنے سے روک دے ورنہ نہ صرف ہم شدت پسندی کی جس أگ میں جل رہے ہیں اس میں مزید اضافہ ہو گا بلکہ ہم اپنی قومی شناخت بھی کھو دیں گے اور پھر زلزلہِ اس سے ھی زیادہ شددت سے آئے گا پھر سمندری طوفان بھی آئیں گے پھر بڑی بڑی عمارتیں بھی زمین بوس ہوں گی اور ہمارا نام و نشان تک مٹ جائے گا اورہاں ہماری عدالتوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عدالتیں سختی کے ساتھ میڈیا کو ایک ضابطہ اخلاق کا پابند کریں تو شائدہم طنع،حرص،لالچ،بناوٹ،کرپشن اور بے راہ رو ی کے مسائل پر قابو پا لیں گے جو اور ذرائع کے ساتھ ساتھ اس ذریعے سے بھی بڑی تیزی سے معاشرے میں سرایت کر کے اس کا حلیہ بگاڑتے جا رہے ہیں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں