پروفیسر محمد حسین
صحافت کا لفظ صحیفہ سے نکلا ہے اور صحیفے کا تعلق زمین سے زیاد ہ آسمانوں کے ساتھ ہے اسکے معنی یہ ہیں کہ ہماری تہذیب میں صحافت کا تعلق الہام کی روایت سے ہے اس روایت میں خیر کا مقام اتنا بلند ہے کہ اسکی اعلیٰ ترین سطح کے حوالے سے رسول اکرم ؐ کومخبر صادق کہا گیا ہے قرآن مجید میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ سچائی سے دامن نہ بچاؤ اس لئے کہ تم جو کچھ کہتے ہو اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ تعالیٰ کو اسکی خبر ہے رسول اکرم ؐ کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جابرسلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے دنیا کی غیر مسلم اقوام صحافت کا یہ تصور پیش کرنے سے قاصد ہیں تاہم انکے یہاں صحافت کی ضرورت اور اہمیت کا گہرا شعور پایا جاتا ہے پاکستان کی قومی تاریخ کو دیکھاجائے تو بانی پاکستان نے کہا کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے ۔13مارچ 1947کو بمبئی میں مسلم صحافیوں کے ایک نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہاکہ آپ کے پاس بڑی طاقت ہے آپ لوگوں کو راہ دکھا سکتے ہیں یا انہیں گمراہ کر سکتے ہیں آپ کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو بنا سکتے یا تباہ کرسکتے ہیں صحافت کی طاقت بہت بڑی ہے لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طاقت ایک امانت ہے آپ اس طاقت کو ایک امانت ہی سمجھئے اور یادرکھے آپ ترقی و بہبود کے راستے پر اپنی قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں اسکے ساتھ میں آپ سے مکمل بے باکی کی توقع رکھتا ہوں خواہ کسی موقع پر میں خود غلطی پر ہوں دوست کی سی دیانتداری کے ساتھ اس پر تنقید کریں ایک ایسے دوست کیطرح جسکا دل مسلمان قوم کے ساتھ دھڑک رہا ہو۔ جس وقت پاکستان وجود میں آیا اس خطے میں چند اخبارات اور رسائل موجود تھے تاہم 1974سے 2017تک صحافت نے بڑی ترقی کی لیکن قائد اعظم کے خیال کے برعکس صحافت کا عروج قوم کا زوال بن کر سامنے آیا حقیقی معنوں میں صحافت ا لیکٹرونک عہد میں داخل ہوگئی ٹیلیویژن شروع ہوا تو اسکے چار مقاصد بیان کئے گئے تھے اطلاع کی فراہمی ‘تعلیم کا فروغ‘ تفریح مہیا کرنا اور قومی یکجہتی کا حصول یہ مقاصد اپنی جگہ قابل قدر تھے مگر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہے ٹیلی ویژن کی اطلاع سیاست کی نذر ہوگئی جب تک ملک میں صرف پی ٹی وی موجود تھا حکمران اس آلے کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور فروغ کیلئے استعمال کرتے رہے پی ٹی و ی کے سیاسی افق پر اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی ملک میں جمہوریت بھی ہوتی تو پی ٹی وی کی سیاسی خبریں مارشل لاء کا منظر پیش کررہی ہوتی تھیں کیونکہ اس میں حزب اختلاف کا وجود نہ ہونے کے برابر پایا جاتا تھا آج ٹیلی ویژن چینلز کی بھر مار ہوگئی ہے ٹیلی ویژن کا ایک مقصد تعلیم کا فروغ تھا لیکن ٹیلی ویژن نہ پی ٹی وی کے عہد میں تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال ہوا اور نہ آج ٹیلی انقلاب کے دور میں تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے کیونکہ علم کا فروغ نہ حکمرانوں کو درکار تھا نہ نجی ٹیلی ویژن کے مالکان کو اس مقصدسے کوئی دلچسپی ہے صحافت کبھی مشن تھی مگر اب کاروبارہے پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے ابتدائی اور بڑی حدتک بعد کے زمان میں بھی تفریح کی فراہمی کا کام دل لگا کر کیا جس کے نتیجے میں پی ٹی وی کے ڈرامے بھارت جیسے ملک پر اثرا نداز ہوئے لیکن بعدازاں پی ٹی وی کی تفریح سطحیت کی زد میں آگئی اور اب تفریح کا مفہوم بد ذوق بن کر رہ گیا ہے کیونکہ معاشرے میں کلچر اور فن کا معیار انتہائی پست ہو گیا ہے ہم اپنے علوم و فنون کی روایت سے بہت دورہوگئے ہیں پاکستان ٹیلی ویژ ن کا ایک مقصد قومی یکجہتی کے حصول کو یقینی بنانا تھا لیکن پی ٹی وی یہ کام نہ کر سکا اگر اس نے یہ کام کیا ہوتا تو 16دسمبر1971کوسقوط ڈھاکہ کا واقعہ پیش نہ آتا 1971میں ٹیلی ویژن یہ نہیں بتا رہاتھا کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہورہا ہے جنرل ایوب نے پاکستان میں ٹیلی ویژن اسلیے شروع نہیں کیا تھا کہ وہ آزاد ی اظہارکے بڑے قائل ہوگئے تھے بحیثیت جنرل وہ تاحیات اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ٹیلی ویژن انکے لئے پروپیگینڈے کا مؤ ثر ترین ذریعہ ثابت ہوگا۔پی ٹی وی نے عریانی و فحاشی کو ایک نئی وسعت اور ایک نئی گہرائی فراہم کی ہے ٹیلی ویژن چینلز کے اکثر ڈرامے اور پروگرام زندگی کا اشتہار بنے نظر آتے ہیں پاکستان میں مسائل کی کمی نہیں ملک کی 70فیصد آبادی خطہ غربت سے نیچے کھڑی ہے ملک کی آدھی تاریخ فوجی آمریتوں اور باقی آدھی تاریخ سول آمریتوں اور انااہلتیوں کی نذر ہو گئی ہے سیاست میں بد عنوانی اور کرپشن عام ہے ملک میں بیرونی مداخلت عروج پر ہے ملک کی60فیصد آبادی ناخواندہ ہے چوری ڈاکے دہشت گردی اغواعام ہیں ان موضوعات میں ہزاورں کہانیاں ہیں مگر معاشرے کے ان اصل موضوعات پر تو کوئی ادب اور آرٹ تخلیق نہیں کر رہااس صورتحال میں بھارت اور ان کے مقامی ایجنٹ معاشرے کی مذہبی بنیادوں کو کھود ڈالنا چاہیتے ہیں وہ ملک پر عسکری سیاسی اور سفارتی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ثقافتی دہشت گردی بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ٹیلی ویژن کا عروج قوم کا اخلاقی زوال بن گیا ہے زندگی میں فضلیت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے ایک تقویٰ اور دوسری علم لیکن ذرائع ابلاغ نے ہمارے ہیروز بدل ڈالے ہیں میڈیا نے جن لوگوں کو معاشرے کا ہیرو بنایا ہے ان میں ادا کار‘ گلوکار‘ کھلاری‘ماڈل گرلز اور برسر اقتدار سیاستدان سرفہرست ہیں ان ہیروز کا معاشرے پر اتنا غلبہ ہو گیا ہے کہ مقتی صاحب علم انسان‘ ادیب دانشور‘قلمکار ‘ سائنسدان اور استا د کو کوئی پوچھتا ہی نہیں میڈیا نے ہماری نئی نسل میں ماں ‘ بیٹی‘ بیوی ار بہن کی عظمت کو عام کرنے کے بجائے ادا کاراؤں ‘گلوکاروں اور ماڈل گرلز کے کرداری نمونوں کے لئے بے پناہ کشش پیدا کی ہے چنانچہ ہماری بچیاں انکی طرح زندگی گزارنے کے خواب دیکھتی ہیں اور ہمارے بالائی طبقات کی لڑکیاں فخر سے کہتی ہیں کہ ہمیں چائے بنانی بھی نہیںآتی بد قسمتی سے ہمارے یہاں ٹیلی ویژن جس طرز حیات کو پروان چڑھا رہا ہے اس میں کھاناپینا زندگی کا حصہ نہیں بلکہ زندگی کھانے پینے کا حصہ بن گئی ہے اس صورتحال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے پیٹ میں ہمارا دماغ ہے پیٹ ہی ہمارا د ل ہے اور پیٹ ہی ہماری ورح ہے اس سلسلہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کی اخلاقی اور علمی تربیت کو بہتر بنائیں اور اپنی روزمرہ زندگی میں میڈیا کے کردار کو محدود کریں اور والدین اساتذہ ‘ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران ‘حکومت اور اس پاک وطن کے ہر شہری کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔
162