تحریر: ساحرہ نقوی (اٹک)
اردو زبان کا ادب بلاشبہ ہماری تہذیب کا ایک قیمتی ورثہ ہے، اور شاعری اس کی روح۔ تاہم یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہر عمر کے طلبہ کے لیے ہر طرح کا ادبی مواد یکساں طور پر موزوں ہوتا ہے؟ خاص طور پر نہم و دہم کے طلبہ جو عمرانی، جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں کے نازک مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
جب ہم کسی قوم کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو محض کتابوں کی دستیابی کافی نہیں ہوتی، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ نصابی مواد کا معیار، نوعیت اور مزاج اس عمر کے طلبہ کی ذہنی سطح اور جذباتی ساخت کے مطابق ہو۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے اردو نصاب میں شامل بعض غزلیں اور ان کے عاشقانہ مضامین ایک سنجیدہ بحث کو جنم دے رہے ہیں، جن پر فوری توجہ درکار ہے۔
یہ عمر (14 تا 16 سال) طلبہ کی نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی تشکیل کی حساس منزل ہے۔ اس دور میں ہارمونی تبدیلیاں، شناخت کی تلاش اور جذباتی ہیجان ایک فطری عمل ہے، جس میں نوجوان ذہن متجسس اور اثر پذیر ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر غزلوں کے اشعار میں “محبوب”، “عشق”، “فراق” اور “وصل” جیسے موضوعات نمایاں ہوں، اور ان کی تشریح میں بار بار کہا جائے کہ “شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہے” یا “محبوب کی بے وفائی سے شاعر رنجیدہ ہے” — تو یہ نہ صرف طلبہ کو فکری الجھن میں ڈال سکتا ہے بلکہ ان کی توجہ تعلیمی مقاصد سے ہٹا کر غیرضروری جذباتی سمت میں لے جا سکتا ہے۔
میٹرک کے اردو نصاب میں شامل بعض غزلیں ایسی ہیں جن میں عاشقانہ مکالمہ، فراق، وصال اور جذباتی اضطراب کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ذیل میں چند اشعار بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں:
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
— میر
غم ہے یا خوشی ہے تو، میری زندگی ہے تو
آفتوں کے دور میں، چین کی گھڑی ہے تو
— ناصر کاظمی
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
— غالب
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
— مومن خان مومن
حال دل یار کو لکھوں کیونکر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
— مومن
خود عشق کی گستاخی سب تم کو سکھائے گی
اے حسن حیا پرور شوخی بھی شرارت بھی
عشاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک
نازک اس نسبت سے ہے کار محبت بھی
— حسرت موہانی
خود آئینہ گر آئینہ چھوڑے تو نظر آئے
دہکا ہوا ہر شعلہ رخسار بہت ہے
— زہرا نگار
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
— احمد فراز
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
— منیر نیازی
چارہ گری بیماری دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
— میر
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا
— خواجہ میر درد
یہ اشعار صرف جمالیاتی اظہار نہیں بلکہ واضح طور پر عشقِ مجازی، جذباتی وابستگی، فراق اور وصل کی کیفیات کو بیان کرتے ہیں — جو کہ نو عمر طلبہ کے ذہنی ارتقا کے لیے موزوں نہیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ بیشتر اسکولوں میں اردو پڑھانے کی ذمہ داری خواتین اساتذہ کے سپرد ہوتی ہے۔ ایسی غزلوں کو کلاس میں بلند آواز سے پڑھنا اور “محبوب” کے تصور کی وضاحت کرنا بعض اوقات ان کے لیے شرمندگی، دقت اور پیشہ ورانہ الجھن کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت سنگین ہو جاتا ہے جب بعض طلبہ طنزیہ انداز اپناتے ہیں یا غیر سنجیدہ سوالات کرتے ہیں، جس سے درس و تدریس کا ماحول متاثر ہوتا ہے۔
اگرچہ اردو ادب میں “عشقِ مجازی” کو “عشقِ حقیقی” کا وسیلہ مان کر بعض اشعار کی تعبیر “اللہ کی محبت” سے کی جاتی ہے، تاہم تعلیمی میدان میں یہ محض زبانی تاویل سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیونکہ اس عمر میں طلبہ کے ذہن پر پہلے ہی عشقِ مجازی کا رنگ غالب آ چکا ہوتا ہے، اور وہ اشعار کو اسی زاویے سے دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔
تجاویز:
1. میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کی عمر ابھی ایسی شاعری کے لیے مناسب نہیں۔ اگر غزل کے حصے کو نصاب سے حذف کر دیا جائے تو تعلیمی معیار پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
2. اس عمر کے طلبہ کے لیے ایسے شعری متون شامل کیے جائیں جو زیادہ تر نظموں پر مشتمل ہوں، اور ان کی اخلاقی، فکری اور سماجی تربیت کو فروغ دیں۔
3. نعتیہ، قومی، اصلاحی اور فکری شاعری کو زیادہ جگہ دی جائے، تاکہ نوجوان ذہنوں کو صحت مند فکری رجحان فراہم کیا جا سکے۔
4. خواتین اساتذہ کی تدریسی سہولت اور پیشہ ورانہ وقار کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے نصاب کی ترتیب دی جائے۔
یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر نصاب ساز اداروں، محکمہ تعلیم اور ماہرینِ نفسیات کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ نئی نسل کو ادب کی اصل روح یعنی فکری بلندی، اخلاقی تربیت اور تخلیقی سوچ سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے — نہ کہ انہیں کم سنی میں ایسے جذباتی مضامین سے دوچار کیا جائے جن کی نہ انہیں مکمل تفہیم حاصل ہے اور نہ جن کے لیے ان کی عمر موزوں ہے۔
