110

(مکافات عمل )

پاکستان کی تاریح میں جمشید دستی وہ واحد سیاستدان ہے جو غریب ہے اور جس کا کوئی بینک اکاؤنٹ موجود نہیں ہے یہ معلومات الیکشن کمیشن کے اعداوشمار کے مطابق ہیں جمشید دستی وہ واحد سیاستدان ہے جس نے

اپنے حلقے ،میں کھربوں پتی جدی، پشتی سیاست کرنے والوں خاندان کو ناصرف ہرایا بلکہ انھیں عبرت ناک شکست سے دوچار کیا اس کی بنیادی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر یہ ماننا پڑے گا کہ اس حلقے کے عوام نے بار بار کے آزمائے ہوئے لوگوں کو ریجیکٹ کر کے جمشید دستی جیسے غریب بندے کو ووٹ دیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک غریب آدمی بھلا کیسے ان کے مسائل کو حل کروا سکتا ہے کیونکہ یہاں اقتدار ہمیشہ سے ہی امیر وں کے گھر وں میں ہی نظر آتا ہے امیر اگر چوری بھی کر لے تو معافی اور غریب آٹا بھی چھپا لے تو سزا اور اگر کوئی غریب اسمبلی میں آ بھی جائے تو اس کو اتنا ذلیل کیا جاتا ہے جتنا جمشید دستی کو کیا گیا ۔ ہاں البتہ جمشید دستی نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ان کے پاس وسائل کم ضرور ہے مگر لوگوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے میں وہ کھبی بھی پیچھے نہیں رہا جمشید دستی وہ واحد سیاستدان ہے جس نے ناصرف اسلام آباد بلکہ ممبران اسمبلی کے MNAہوسٹل میں ہونے والے مکروہ جرائم کو ناصرف بے نقاب کیا بلکہ ان پر اسمبلی کے فورم پر آواز بلند کی اور اس کے ثبوت میڈیا کو مہیا کیے مگر بعد ازاں حکومت کے طرف سے اس پر ایسا پردہ ڈالا گیا کہ کیس ہی داخل دفتر کر دیا گیا ان کی طرف سے اٹھائی جانے والی آواز ملک کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے آنی چاہیے تھے جو ملک میں مذہب کا پرچار کرنے میں آگے ،آگے ہیں اور ان کا یہ مذہبی فریضہ تاھ کہ وہ اس پر آواز اٹھاتیں مگر اقتدار کی خاطر یہ جماعتیں ایسی غیر اسلامی کاموں میں کوئی آواز بلند کرنا ہی نہیں چاہتی کیونہ ایسی آواز سے مغربی ممالک اور امریکہ بہادر ناراض ہوتا ہ ہے یا شاید ان کو لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر احتجاج کیا جائے یہ وہ کڑوی باتیں ہیں جنھیں سامنے رکھ کر ہمارے حکمرانوں نے جمشید دستی کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جمشید دستی کو جیل میں ڈالاگیا حکمران بار بار یہ کہتے ہیں کہ انھیں انتقامی سیاست نہیں آتی مگر وہ ہر بار بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا ہے یہاں مکافات عمل ہونے میں دیر نہیں لگتی آج اگر وہ کسی کے ساتھ ایسے کریں گے تو پھر کل ان کی بھی باری ہے اور اس کی تازہ مثال جی آئی ٹی کی کاروائی ہے کل لوگوں کی ماؤں بہنوں کو اعدالتوں میں گھسیٹنے والے آج خود کی باری پر چینخ رہے ہیں یہ مکافات عمل کی چھوٹی سی مثال ہے جس طرح جمشید دستی کو جیل میں ڈالا گیا اسی طرح کھبی میاں صاحب خود بھی جیل یاترا میں تھے تو کہا کرتے تھے یہ کہ ضلم کی انتہاء ہے مگر آج دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کر کے شاید ان کے دل کو تسکین ملتی ہے عوام بلاشبہ جمشید دستی کے اس موقف کی ہمایت کرتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے گناہوں کو چھپانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں انھیں صرف اقتدار کی کشتی میں سوار ہونا ہے اس کے لئے ن، م، ل، ق، کوئی اہمیت نہیں رکھتا اگر اہمیت ہے تو صرف اقتدار کی اس لئے شاید سیاست کو لوگ منافقت سے تعبیر کرنے لگے ہیں اور اس کے یہ معانی لوگوں نے خود سے اخذ نہیں کیے بلکہ یہ سب طرز عمل ہمارے حکمرانوں نے انھیں سکھا دیا ہے بار بار ایک ہی بل سے ڈسنے کے بعد اب عوام شعور بیدار ہو چکا ہے اور اس کے لئے ماحول بھی سازگار ہے دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی عوام کے مستقبل کا کیا فیصلہ ہوتا ہے نظریہ ضرورت ،مائنس ،،پلس فارمولے سب آزمائے جا چکے اب فیصلے کا وقت ہے اور یہ فیصلہ پاکستان کے سفر کا تعین کر دے گا پاکستان کے ممبران اسمبلی میں سے جس طرح جمشید دستی پر تشدد کیا گیا جس طرح اسے جیل میں ڈالا گیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے جمشید دستی کا کہنا ہے کہ ان کے جیل کے سیل میں بچھو تھے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا انہیں کئی دن کھانا نہیں دیا گیا انہیں بد ترین انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ہمارے ہاں جیلوں کے اندر جس قسم کی صورتحال پائی جاتی ہے اس سے ہر شہری اور ہر حکومتی شخصیت بخوبی واقف ہے رشوت’ بدعنوانی’ تشدد سب چلتا ہے بااثر افراد یا رشوت دینے کے معاملے میں فراخدلی افراد کو جیلوں کے اندر عزت و احترام اور تمام مطلوبہ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اس کے برعکس عام قیدیوں یا حوالاتیوں کے ساتھ شدید ناروا سلوک اختیار کیا جاتا ہے’ جمشید دستی قومی اسمبلی کے ممبر ہیں ان کی اس حیثیت میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ جیل حکام یا اہلکاروں میں سے کوئی بھی ان پر تشدد کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے اگر ان پر جیل میں تشدد کیا گیا ہے تو یقیناًاس کے پیچھے کسی حکومتی شخصیت کا اشارہ ہوسکتا ہے اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو یہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے ایسی صورت میں عدلیہ کو یہ کھوج لگانا ہوگا کہ کس حکومتی شخصیت کے اشارے پر تشدد کیا گیا متعلقہ شخصیت کے خلاف بھی قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے دوسری طرف پنجاب میں جیلوں کی جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے وہاں جا کر لوگ پہلے سے زیادہ جرائم پسند ہو جاتے ہیں وہاں کوئی اصلاحی مرکز نہیں جہاں انھیں اپنی زندگی میں لوٹانے کی کوئی کوشش کی جا سکے یہ سب کچھ موجودہ حکمران دیکھ چکے ہیں مگر وہ کسی قسم کی بھلائی کے حق میں نہیں خود میاں صاحبان نے جیل کاٹی ہے انھیں جیل کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے مگر کوئی اسطرف توجہ ہی نہیں دینا چاہتا جبکہ دوسری طرف ضلم و جبر کی وہ داستانیں جیلوں میں رقم ہو تی ہیں جنھیں کوئی لکھنے والا ہی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس بات کو نوٹس لے کہ ایک ممبر قانون ساز اسمبلی پر غیر قانونی تشدد کیوں کیا گیا اور ایسے عناصر کی سرکوبی کی جائے جو اس میں ملوث رہے ہیں کیونکہ یہ دنیا ہے یہاں مکافات عمل ہوتے دیر نہیں لگتی۔

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں