سالار اسلام
ستمبر 2018 کا آخری ہفتہ تھا۔ احتساب عدالت لاہور کے حبس زدہ برامدوں میں نصب تمام بینچ مکمل طور پر لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔اپنے والد کے پاس کافی دیر تک کھڑا رہنے کے بعد شدید تھکاوٹ محسوس کرنے کی وجہ سے میں گھوم پھر کر بیٹھنے کی مناسب جگہ تلاش کر رہا تھا کہ ایک بینچ پر کچھ گنجائش نظر آئی۔ بیٹھ کر دائیں طرف نگاہ دوڑائی تو ایک باریش بزرگ نظر آئے ۔ انکے سامنے کھڑے ہوئے ایک نوجوان نے انہیں پانی کی بوتل پکڑائی تو فضا میں بھاری لوہے کی جھنکار سے مجھے پتہ چلا کہ میرے والد کی طرح وہ بھی اس ملک و قوم کے مجرم ہیں انکی ہتھکڑی کی بھاری زنجیر ایک موٹے تازے پولیس مین کی بھاری توند پر بندھی بیلٹ سے اٹکی ہوئی ہے۔ چونکہ ایسے حلیے والا مجرم میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا اس لئے مجھے دلچسپی محسوس ہوئی اور میں نے غور سے ان کے چہرے کی طرف دیکھا تو ان کی عینک کے اوپر پیشانی پر مجھے ایک بڑا محراب نظر آیا۔ اسی اثنا میں وہ نوجوان انہیں پانی کی بوتل پکڑا کر میری بائیں طرف بیٹھ گیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر میرا نام پوچھا اور شاید مزید سوالات کرتا مگر میں اس بزرگ کے متعلق جاننے کو اتنا بے تاب تھا کہ میں نے ان سوالات کو اسی کی طرف موڑ دیا۔ نوجوان نے مجھے بتایا کہ یہ بزرگ اس کے والد ہیں۔ میرے اس سوال پر کہ وہ کس جرم میں گرفتار ہیں وہ نوجوان پھٹ پڑا اور کہنے لگا کہ میرے والد صاحب کا جرم بہت بڑا اور ناقابل معافی ہے۔یہ کہ کر وہ خاموش ہو گیا ۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ میرا اور اس کا دکھ ایک ہی ہے اور میں بھی رات کے پچھلے پہر راولپنڈی سے نکل کر اپنے والد کی تاریخ پر ان سے ملنے صبح صبح لاہور پہنچا ہوں تو اس نے میری طرف ہمدردانہ نظروں سے دیکھا اور مجھے اپنے والد کی کہانی سنانا شروع کی جسے سن کر میں اپنی پریشانی اور تھکاوٹ بھول گیا۔ میں یہ بھی بھول گیا کہ میں اسکول سے چھٹی کر کے عدالت کے ان پر شور برآمدوں میں جہاں تھوڑی دیر کے بعد ہتھکڑیوں کی جھنکار موسیقی بکھیرتی ہے، اپنے والد کے ساتھ ایسے ہی سخت اور تپتے بینچوں پر کچھ وقت گزارنے آیا ہوں۔ اس نوجوان کے کرب اور دکھ نے مجھے یہ بھی بھلا دیا کہ کچھ ہی بینچ چھوڑ کر میرے والد بھی عین اسی طرح ہتھکڑی میں جکڑے بیٹھے ہیں اور شاید میرا منتظر بھی ہوں۔ پروفیسر ڈاکٹر ظہیرالدین کے اس پریشان حال بیٹے کا دکھ محسوس تو کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں۔ مجھے لگا کہ ڈاکٹر ظہیرالدین کے اس شکستہ دل بیٹے نے اس مملکت خداداد کی ستر سالہ تاریخ محض بیس منٹ میں بیان کر دی ہے۔ ہجرت در ہجرت اور ظلم در ظلم پر مشتمل یہ داستان خونی رشتوں کی تڑپ، اسلامی اقدار کے تقدس، مٹی کی کشش، انسانیت کے درد، سنگ دلوں کی فرعونیت اور انصاف کے خون سمیت مختلف روح فرسا ابواب پر مشتمل ہے اور اتنی کٹھن کہ الفاظ میں ڑھالنا تقریبا ناممکن۔ڈاکٹر ظہیر الدین کے والدین اپنے خاندان سمیت مشرقی پنجاب سے اس خون آشام ہجرت کا حصہ بنے جو مسلما نان ہند نے یہ خوشی اور بہ فخر قبول کی تھی فیصل آباد میں آباد ہو. مشکل حالات میں پروان چڑھنے والے ظہیر نے اسکول اور کالج کی تعلیم فیصل آباد سے حاصل کرنے کے بعد انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور سے سول انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کی اور واٹر ریسورسز میں ایم ایس سی کیا. اس کے بعد امریکہ کی بہترین یونیورسٹی سے سکالرشپ حاصل کیا اور انوائرمنٹل سائنسز اور واٹر ٹریٹمنٹ میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد لاکھوں ڈالر کی تنخواہ پر امریکہ کی اسی بہترین یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا اور پھر وہیں سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا. مملکت خداداد کی محبت اور مٹی کی تڑپ نے چین نہ لینے دیا اور وہاں کی بہترین زندگی اور آسائیشوں کو چھوڑ کر واپس آئے اور نسٹ (NUST) میں انتہائی کمتر مراعات پر پڑھانے کو ترجیع دی. جنونی اور دیوانے ڈاکٹر ظہیر الدین کا یہ پہلا جرم تھا جس کے تسلسل میں بانی پرنسپل کی حیثیت سے نسٹ یونیورسٹی میں (NUST) میں انوائر مینٹل سائنسز کے انسٹیچیوٹ کی بنیاد رکھی اور اس کو بام عروج پر پہنچایا. کئی برس بعد ایک خصوصی اسکالرشپ پر واٹر ٹریٹمینٹ میں مزید تعلیم کے لئے آسٹریلیا کا رخت سفر باندھا. اپنے شہریوں کو اعلی ترین انسانی حقوق اور آسائشیں دینے میں مشہور اس فلاحی ریاست نے نہ صرف ڈاکٹر ظہیر کو ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ پوری فیملی سمیت شہریت بھی دے دی۔بچوں نے آسٹریلیا کے بہترین سکولوں اور کالجوں میں تعلیم پائی اور ابھی یونیورسٹی تعلیم تک پہنچے تھے کہ دیوانے ڈاکٹر ظہیر کے دل میں مٹی کی محبت نے سر اٹھانا شروع کر دیاکسی دوست سے معلوم ہوا کہ حکومت پنجاب نے اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کر نے کے لیے ایک عظیم الشان منصوبے کا آغاز کیا ہے. خاندان کی آسائش اور خوشحالی راس نہ آئی اور رگ دیوانگی پھر بھڑک اٹھی کہ پانی کے ٹریٹمنٹ کے میدان میں اس معیار کی تعلیم اور تجربہ کا حامل شائد ہی کوئی اور پاکستانی تھا اور ہوتا بھی کیوں، کہ سڈنی جیسے مثالی شہر میں کروڑوں شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں اس دیوانے کا کلیدی کردار تھا. جرائم کے اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے سوچا کہ اس کی تعلیم، تجربہ اور صلاحیت اسکی مٹی کی امانت ہے. لہذا اپنی آسائش, آسودگی اور اپنی اولاد کے مستقبل کو تہس نہس کرتے ہوئے رخت سفر باندھا اور سب اہل خانہ کو آسٹریلیا سے اکھاڑ کر محض چند لاکھ کی نوکری پر پنجاب صاف پانی کمپنی میں بحیثیت چیف ٹیکنیکل آفیسر کام شروع کر دیا. بیوی بچوں نے احتجاج کیا مگر عادی مجرم بھلا کب کسی کو خاطر میں لاتے ہیں نتیجا سب کچھ بشمول پر آسائش گھر کو بیچ باچ کر عازم وطن ہوئے اور جملہ کنبہ اسلام آباد میں بس گیا. ڈاکٹر ظہیرالدین نے لاہور کے ایک ہاسٹل میں بسیرا کیا اور زہریلا پانی پینے والے جنوبی پنجاب کے باسیوں کو بین الاقوامی معیار کے صاف پانی کی فراہمی پر جت گیا. دنیا بھرمیں مشہور بین الاقوامی کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے پورے پنجاب کا سروے کر کے ڈیزائن کا کام شروع کر دیا اور پہلے مرحلے میں دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں کام کرنے والی مشہور عالم جرمن کمپنی (KSB) نے ایک سال سے کم عرصے میں ملتان اور بہاولپور کی پانچ تحصیلوں میں تقریبا دس لاکھ آبادی کو دنیا کے جدید ترین (Reverse Osmosis Plants) کے ذریعے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے معیار کے پانی کی فراہمی شروع ہو گئی. یہاں پہچنے کے بعد نوجوان نے کچھ توقف کیا اور پھر دھیمی
آواز میں بولا”زہریلا پانی پینے والے ان دس لاکھ لوگوں کو صحت مند پانی کی فراہمی کی قیمت مجھے اور میری بہن کو ادا کرنی پڑی میں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں داخل ہوا اور میری بہن ایک مقامی میڈیکل کالج میں.والدہ نے اس احمقانہ ہجرت کا بہت برا اثر لیا اور ڈیپریشن کی مریضہ بن کر اسلام آباد کے ہسپتالوں میں دھکے کھا رہی ہیں اور اصل مجرم تین ماہ کا جسمانی ریمانڈ کاٹنے کے بعد گزشتہ چار ماہ سے ہتھکڑیوں کی جھنکار میں عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے مجھے یونیورسٹی کی تعلیم چھوڑ کر گھر کا چولہا جلانے کے لیے ایک پرائیویٹ ادارے میں نوکری کرنی پڑی اور چونکہ وہاں مہینے میں ایک چھٹی ملتی ہے اس لیے وہ محض ایک تاریِخ پر ہی والد سے ملنے آ سکتا ہوں۔ میں نے اس کے چہرے پر نگاہ دوڑائی مگر وہ اپنی بھیگی آنکھوں کو چھپانے کے لیے مجرم سے پانی کی خالی بوتل واپس لینے کے بہانے آگے جھک گیا. میں اپنی پریشانی اور دکھ بھول گیا اور ایک لمحہ میں سوچا کہ یہ دھرتی کتنی خوش قسمت ہے کہ اس کو ایسے لاکھوں دیوانے میسر ہیں مگر دوسرے ہی لمحے مجھے یہ خیال آیا کہ ہم کتنے بد قسمت اور بے حس ہیں کہ ایسے دیوانوں کو زندہ درگور کر دوسروں کے لئے نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ پھر بھی ڈاکٹر ظہیر الدین جیسے دیوانے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ اللہ اکبر
87