بے شک یہ دنیاوی زندگی عارضی ہے‘ اصل تو مرنے کے بعد ہے جہاں انسان کو موت نہیں آئے گی وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا، دن مہنیے اور سال گزر جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کہ والدین اپنی ساری جمع پھونجی خرچ کر کے خون پسینہ ایک کر کے اپنے بچوں کی پروش کرتے ہیں اور جب وہ جوانی کی دہیلز پر قدم رکھتا ہے تو کسی نہ کسی حادثہ کا شکار ہو کر والدین روتا رولاتا چھوڑ کر ملک عدم سدھار جاتا ہے۔ بلا شہ جب اس طرح کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو والدین کے لیے اس سے ذیادہ دکھ کی اور کوئی با ت نہیں ہوتی کہ جب وہ اپنے کندھوں پر اپنی جوان اولاد کا جنارہ اُٹھاتے ہیں۔ بہر حال قدرت کے ہر فیصلے میں حکمت ہے۔ اللہ تعالی کے فیصلوں پر انسان سوائے صبروشکر کیا کر سکتا ہے۔ ہوتا وہی ہے جو ازل سے انسان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں درکالی شیر شاہی کے رہائشی سابق کونسلر راجہ محمد یونس کا پوتا منا ظر حسین کا جوانسال بیٹا سعد جو کہ مقامی نجی سکول میں جماعت دہم کا طالب علم تھا موٹر سائیکل حادثہ کا شکار ہو گیااور چند دن موت وحیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملا۔ سعد گھر سے نہم سے پاس ہونے کا رزلٹ لینے گیا تھا اور وہ پاس بھی ہو گیا تھا۔ لیکنُ اسے کیا خبر تھی کہ وہ اپنے پاس ہونے کی خبر سننانے سے پہلے خود ہی خبر بن جائے گا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہا تھا کہ موٹر سائیکل تیز رفتاری کے با عث سامنے سے آنیوالی کیری ڈبہ سے ٹکرا گیا۔ دوسرے دوست تو کم زخمی ہوئے مگر سعد کو شدید زخمی حالت میں پمز ریفر کر دیا گیا ۔ سعد ذہین اور ہوشیار ہونے کیوجہ سے سارے گھر بالخصوص اپنے والد اور دادا کا لاڈلہ تھا۔ ایکسیڈنٹ کی خبر پورے خاندان کو ہی سوگوار کر دیا ہر لب سے سعد کیلے دعائیں نکل رہی تھیں۔ ڈاکٹروں کی بھر پور کوشش کے باوجود سعد جانبر نہ ہو سکا نہ ماں باپ کیُ دعائیں کام آئیں نہ ماموں چچادادا کی کاوشیش اسے بچا سکیں۔ سعد کی واپسی کی منتظر ما ں اور بہنیں اسے دوبارہ زندہ نہ دیکھ سکیں اس کی موت اٹل تھی۔ کیونکہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ ہر ذی روح نفس نے موت کا ذائقہ چھکنا ہے۔سعد کی موت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص سوگوار اور آنکھ اشکبار تھی ہر وقت سفید سوٹ میں ملبوس رہنے والے سعد سفید کفن پہنا کر منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالی جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحیقن کو صبرجمیل عطا کرے(آمین){jcomments on}
120