134

مون سون کی ابتداء اور حفاظتی تدابیر

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا ایک اہم ملک ہے جس میں گزشتہ چند برس کے دوران ہی موسمی حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں ہم نے گزشتہ برس تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا۔ مون سون کی ابتداء میں ہی بھارت نے اپنی روایتی پاکستان دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے دریائے راوی میں پانی چھوڑ دیا۔۔ ایسا ہر سال ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان میں پانی چھوڑ دیتا ہے اور یہ اس موسم میں کرتا ہے جب پاکستان میں بارشیں زیادہ ہو رہی ہوتی ہیں اور پاکستان میں پانی پہلے ہی بہت زیادہ ہوتا ہے، پاکستان کے ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی اور پہلے سے ذخیرہ شدہ پانی بھی دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بھارت اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں مزید تباہی پھیلانے کے لیے اپنے ڈیموں کا پانی پاکستان کے دریاؤں میں چھوڑ دیتا ہے جس سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچتا ہے، ملک میں فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، پانی زیادہ ہو جائے تو دیہاتوں میں داخل ہو جاتا ہے جس سے لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں اور ملک کا اچھا خاصا نقصان ہو جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ بھارت کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہے جس کی وجہ سے وہ پانی ہمارے دریاؤں میں چھوڑتا ہے بلکہ بھارت نے تو بہت زیادہ ڈیم ہمارے دریاؤں پر تعمیر کیے ہیں جن میں سے کئی غیر قانونی اور سندھ طاس معاہدے کے بھی خلاف ہیں۔ مگر وہ بھارت ہے اسے کون روک سکتا ہے ظاہر ہے کفریہ طاقتیں کفریہ طاقتوں کا ہی ساتھ دیتی ہیں جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:”اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں“(محمد: 73)۔ اسی طرح نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”کفار سب ایک ہی قوم ہیں“۔ لہٰذا امریکا اور دیگر طاقتور ممالک بھارت کی ہی حمایت کریں گے پاکستان کی وہ کیسے کر سکتے ہیں؟ جبکہ وہ سب ایک قوم ہیں اور مسلمان الگ قوم ہیں۔ لہٰذا بھارت ڈیم بنائے کچھ بھی کرے اسے کوئی نہیں روک سکتا، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اچھے خاصے ڈیم بنائے ہیں اور مزید ڈیم بنانے کے منصوبے بھی زیر غور ہیں۔
دوسری طرف ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم نے ڈیم بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی پچاس ساٹھ برس قبل جو ڈیم بنائے تھے ہم انہی پر گزارا کر رہے ہیں جبکہ ہمارے نئے ڈیم سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔پرانے ڈیموں میں اتنی بڑی مقدار میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا۔ جب بارشیں نہیں ہوتیں تو پانی کی قلت ہو جاتی ہے اور لوگوں اور مویشیوں کو ضرورت کے لیے بھی پانی نہیں ملتالیکن جب بارشیں زیادہ ہوتی ہیں توڈیم بھر جاتے ہیں جب مزید ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی تو پانی دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے سیلاب آجاتے ہیں اور تباہی مچ جاتی ہے۔ اگر ہم نے وافر مقدار میں ڈیم بنائے ہوتے تو پارشوں کا پانی ہم وہاں جمع کر لیتے جب پانی کی قلت ہوتی تو اس پانی کو استعمال میں لایا جا سکتا تھا۔
اب مون سون کی بارشیں شروع ہو چکی ہیں اور ہر سال کی طرح اس بار بھی سیلاب کے خطرات منڈلا رہے ہیں، مون سون میں جنوبی ایشیا
کے خطے میں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کے لیے اگر پہلے سے احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو اس صورتحال سے نمٹنا آسان ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس کی طرف عدم توجہی کا نتیجہ گزشتہ برس پاکستان میں پیدا ہونے والی
سیلابی صورتحال کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیلاب کا انتظار کیے بغیر پہلے سے ہی ایسے انتظامات کر لیے جائیں جن کے ذریعے سیلاب کے نقصانات کم سے کم کر لیے جائیں۔ اس کے لیے تو سب سے پہلے ڈیم بنانے کی طرف توجہ دینی چاہے لیکن جب تک یہ نہیں بنتے تب تک دریاؤں کے بند دیکھے جائیں اور جہاں سے وہ کمزور ہوں انہیں مضبوط کیا جائے۔ عوام میں آگہی مہم چلائی جائے کہ بارشوں کے دوران کس طرح احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں اور اگر سیلاب آجائے تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ کس طرح کے حالات میں لوگوں کو اپنا سامان محفوظ جگہ پر رکھ لینا چاہیے۔
جن علاقوں میں سیلاب کا خطرہ رہتا ہے وہاں کے عوام کو تربیت فراہم کرنی چاہیے کہ سیلابی صورتحال سے کیسے نمٹا جائے اور کس طرح اپنے اہل و عیال، سازو سامان اور ارد گرد کے لوگوں کو محفوط رکھا جائے۔ اس کے لیے مختلف علاقوں میں یونین کونسل کی سطح پر تربیتی کیمپس کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ عوام باآسانی تربیت حاصل کر لیں۔ اس کے علاوہ اگر سیلابوں کے خطرات ہوں تو حکومت پہلے سے ہی عوام کے لیے رہائش اور کھانے کا انتظام کر لے سیلاب آنے اور لوگوں کے بے گھر ہو جانے کے بعد یہ انتظامات ناممکن ہو جاتے ہیں اور لوگ سڑکوں پر کھلے آسمان کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام تر ذمہ داریاں حکومت کی ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں