معاشرتی برائیاں اس قدر جڑ پکڑ چکی ہیں کہ چاہتے ہوئے انہیں اُکھاڑ پھینکا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوچکاہے۔معاشرہ کوئی بھی ہو لالچ اور مفادات کے فارمولے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں ہر شخص کی زندگی میں ایسا اسرار چھپا ہوتا ہے کہ کوئی چاہے نہ چاہے لیکن مفادات پر کمپرومائز ضرور کرتا ہے ہمارے معاشرے میں مفاداتی طرز عمل ہر شعبہ ہائے زندگی میں یکساں طور پر دیکھائی دیتا ہے لیکن سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال محکمہ پولیس میں دیکھائی دیتی ہے جہاں بیٹھے باوردی لوگ شاید موت اور آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے کیونکہ اپنی 27 سالہ صحافتی زندگی میں اس محکمہ کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے یہاں ملزم کو معصوم اور معصوم کو ملزم بنانے کے ہنر آشنا بڑی تعداد میں موجود ہیں جو صرف پیسے کے لیے لوگوں کی زندگیاں عذاب بنانے سے گریز نہیں کرتے میری آج کی تحریر گذشتہ دنوں پریس کلب بیول میں صحافیوں کو گوجرخان پولیس کی زیادتی کی داستان سنانے والے محبت حسین بارے ہے محبت حسین بیول کے نواحی گاوں دھمیال نئی آبادی کا رہائشی ہے۔کمزور اور دھان پان سا محبت حسین پنڈی پوسٹ کو اپنی داستان سناتے ہوئے مسلسل اشک بار رہا۔محبت حسین نے بتایا کہ انتہائی غریب انسان ہے اس کا ایک بیٹا قاصد حسین بیول میں ایک ہوٹل پر مزدروی کرتا تھا لگ بھگ دس گیارہ ماہ قبل بیول کے سرفراز نامی ایک نوجوان نے اسے دیہاڑی پربطور ڈرائیور اپنے ساتھ گوجرخان چلنے پر آمادہ کیا گوجرخان میں اس نوجوان نے میرے بیٹے کی لاعلمی میں منشیات خریدی محبت حسین کے مطابق اسے علم نہیں کہ اس نے کونسی سی نشہ آور چیز خریدی تھی واپسی پر پولیس چیکنگ کے دوران منشیات برآمد ہونے پر انہیں گرفتار کرکے گوجرخان تھانے منتقل کردیا گیا چونکہ سرفراز نامی نوجوان صاحب ثروت تھا اس لیے وہ (مبینہ طور پر) 50ہزار رشوت دے کر رہا ہوگیا اور پولیس نے کارکردگی دیکھاتے ہوئے میرے بیٹے پر چرس ڈال کر اس پر مقدمہ بنادیا بیٹے پر اندارج مقدمے کا علم انہیں کافی روز بعد ہوا۔محبت حسین کے مطابق حقیقت معلوم ہونے پر اس نے منشیات لانیوالے اصل کردار سرفراز سے رابطہ کیا اور اپنے بیٹے کو پھنسانے پر اس سے احتجاج کیا تو اس کا کہنا تھا کو جو ہوا سو ہوا اب آپ وکیل کرلیں خرچ میں ادا کروں گا۔اس کے کہنے پر 30ہزار میں وکیل کیا گیا سرفراز مختلف حیلے بہانوں سے وقت گذارتا رہا کہ کیس کچھ پرانا ہوجائے اور اس پر کوئی حرف نہ آئے بعدازاں اس نے وکیل کی فیس ادا کرنے سے انکار کردیا۔محبت حسین نے افسردہ لہجے میں بتایا کہ وکیل نے تیس ہزار لیے۔جبکہ وکیل کی ایماء پر عارف نامی تفتیشی آفیسر اور عتیق نامی ایک اہلکار کو بھی بیٹے کی رہائی کے وعدے پر 13 ہزار ادا کیے۔لیکن ان لوگوں کے رقم لینے کے باوجود میرے بیٹے کو سزا ہوگئی۔محبت حسین نے نم آنکھوں سے کہا میری غربت اور ناخواندگی آڑے آرہی ہے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ گوجرخان پولیس کے اس ظلم زیادتی اور ناانصافی پر ملک کے کس فورم پر انصاف کے لیے دہائی دوں جہاں میری بات سنی جائے اصل ملزم کو رشوت لے کر چھوڑنے اور ایک بے گناہ کو پھسانے کے عمل کو کہاں چیلنج کروں محبت حسین نے اس موقع پر آئی جی پنجاب کو اس سلسلے میں درخواست دینے کا عندیہ دیا۔لیکن جس ملک میں انصاف ٹکے ٹوکری بکتا ہو وہاں محبت حسین جیسے بے پہنچ انسان کی درخواست کون سنے گا کیونکہ وطن عزیز میں غریب کے مصائب‘ضروریات حاجت اور عزت نفس کی اب کوئی وقعت نہیں۔پیسے کی ہوس نے اخلاقیات‘سچائی‘ایمانداری اور رزق حلال جیسی چیزوں کی اہمیت ہی ختم کردی ہے۔گناہ کی دلدل میں اترنے والوں کو ذرا برابر احساس نہیں ہوتا کہ بادشاہت ہو یافقیری ایک دن فنا ہوجانے کے لیے ملتی ہے محبت حسین جیسے سیدھے سادے اور غریب انسان کو عذاب میں مبتلا کرنے والے یاد رکھیں یہ عہدے اور یہ اختیار صدا نہیں ہوں گے محبت حسین اس عمر میں بیٹے کی رہائی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے قرض لے کر تمہارے پاپی پیٹ بھررہا ہے لیکن اس کی حالت سے مجھ جیسا خاکی انسان شخص رنج میں مبتلا ہوسکتا ہے تو سوچو جو سب کی دکھوں کا مداوا کرتا ہے وہ کس قدر ناراض ہوگا۔محبت حسین کا بیٹا منشیات کے ساتھ پکڑا گیا یقیناََ ملزم ہی تصور ہوگا۔لیکن اصل ملزم کو مبینہ طور رشوت کے عوض رہا کرنا اور صرف محبت حسین کے بیٹے کو نامزد کرنا زیادتی نانصافی اور ظلم ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔اس کیس سے جڑے تمام لوگ یاد رکھیں ایک عدالت اوپر بھی لگتی ہے اور اوپر والا منصف جہاں رحیم ہے وہیں قہار بھی ہے۔۔رحم بھی کرتا ہے اور سزا دنیا میں دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔
