
تحصیل گوجر خان کا کثیر آبادی اور کاروباری لحاظ سے اہم ترین مرکزمندرہ جس کی اہمیت عسکری حوالوں سے بھی انتہائی مسلمہ ہے پاکستان کا بہادری کا سب سے بڑا اور پہلااعزاز نشان حیدر ماتھے پر جھومر کی طرح سجائے غیور سپوتوں کی اس سر زمین کے مسائل حکومتی ایوانوں تک نہ پہنچ سکے ناقص سیوریج سسٹم،صحت و صفائی کی بد حالی،تعلیمی سہولتوں کا فقدان،ذرائع آمدو رفت کی خستہ حالی،ٹوٹی پھوٹی گلیوں جیسے مسائل مندرہ کے مکینوں کے لیے سوہان روح بن چکے ہیں،اہلیان علاقہ، سماجی شخصیات نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہرطرف گندگی کے ڈھیروں اور صفائی کا نتظام نہ ہونے کی وجہ سے شہر کو بیماریوں نے گھیر لیا ہے بازار میں مناسب نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا کھڑا پانی (جوہڑ کی شکل اختیار کر جاتا ہے)اس کے علاوہ بازار میں چھابڑی فروشوں اور ریڑھی بانوں نے قبضہ کیا ہوا ہے،جس کی وجہ سے لوگوں کا گزرنا دشوار اور خواتین کو خریداری کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے مذبح خانہ نہ ہونے کی وجہ سے قصاب شہر ہی میں جانوروں کو ذبح کرتے ہیں جس کی وجہ سے گندگی اور بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے مذبح فروشوں اور قصابوں نے بازار کو مچھلی بازار بنا رکھا ہے قصاب دیہاتوں سے کمزور،بیمار اور لاغر جانور سستے داموں خرید کر ناقص اور مضر صحت گوشت کو مہنگے داموں بیچتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں تحصیل فوڈسنٹری انسپکٹر کو منتھلیوں نے گونگا اور بہرہ بنا دیا ہے اسی طرح مندرہ میں دو نمبر مال کا دھندہ بھی پورے عروج پر ہے لیکن انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے انتظامیہ کے بست و کشاد فرنشڈ آفسوں میں بیٹھ کر ہی اپنا روح رانجھا راضی کر لیتے ہیں گیس کی پائپ لائن شہر کے انتہائی قریب سے گزرنے کے باوجودمندرہ کی بعض آبادیوں کو سیاسی بنیادوں پر گیس جیسی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ گوجر خان سے نکلنے والی گیس کروڑوں روپے خرچ کر کے اسلام آباد اور مری کی نوری مخلوق کو تو پہنچا دی گئی ہے مگرسابقہ پیپلز پارٹی کے دور میں مسلم لیگی ممبر صوبائی اسمبلی راجہ شوکت عزیز بھٹی کی یونین کونسل گہنگریلہ کی آبادیوں موضع کلیال،جٹال،حکیم چھٹہ،ڈھوک صالح محمد،سوڑہ،بچہ،سوج بہادر،گل پیڑہ،سنجوت،تھرجیال کلاں تھرجیال خورد،چہاری کلیال،چہاری عزیز بھٹی،گہنگریلہ اور یونین کونسل کری دولال کے متعدد موضعات و دیگر آبادیوں کے باسیوں کو در خور اعتناء نہیں سمجھا گیا عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مندرہ میں پینے کے صاف پانی کے لیے فلٹریشن پلانٹ نصب کیا جائے، ٹی ایم او گوجر خان کی نااہلی اور مجرمانہ عفلت کی وجہ سے مندرہ گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکا ہے،صفائی کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے زندگی اور گندگی میں کوئی حد فاصل نہیں رہی‘جس کی وجہ سے شہر کو انواع اقسام کی بیماریوں نے گھیر رکھا ہے مچھروں کی بہتات کی وجہ سے مندرہ کی نواحی آبادیوں میں موذ ی امراض تشخیص ہورہے ہیں ڈینگی‘چیچک سمیت انتہائی مہلک بیماریوں کے وائرس کے خاتمے کے لیے بھی محکمہ ہیلتھ کے کارپردازوں نے مرکز مندرہ کی کسی یونین کونسل میں نہ تو سپرے کروایا اور نہ ہی دیگر حفاظتی اقدامات کیے گئے کوئی ستم ظریفی یہ ہے کہ مندرہ شہر میں واقع اکلوتی سرکاری ڈسپنسری کوڑے کے
ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے ڈسپنسری دارالشفاء کے بجائے دارالمراض بن چکی ے البتہ ضلع کونسل ڈسپنسری مندرہ کے انچارج ڈاکٹر محمد رفاقت کی کاوشوں کو نہ سراہنا بھی قرین انصاف نہ ہوگاجو وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے رات دن کوشاں ہیں دوسری طرف جی ٹی روڈ پر واقع سرور شہید رورل ہیلتھ سینٹر مندرہ جہاں گزشتہ کئی سالوں سے تعینات سابق ایم او ڈاکٹر خلیل اللہ کی کاوشوں اور خصوصی دلچسپی سے نہ صرف اپ گریڈ کر دیا گیا تھا بلکہ ”پیمان“ کے تعاون سے اس میں انتہائی جدید اور قیمتی مشینری بھی انسٹال کر دی گئی تھی آر ایچ سی کے سابق انچارج ڈاکٹر خلیل اللہ جو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی نہ صرف احسن طریقے سے کر رہے تھے بلکہ رورل ہیلتھ سینٹر خدمات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے رات دن ایک کر رہے تھے کہ تبادلہ کے بعد سرور شہید روڈ کال سنٹر مندرہ کا کوئی پرسان حال نہ رہا ڈاکٹر ز صاحبان اور متعلقہ سٹاف کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آر ایچ سی عین جی ٹی روڈ پر واقع ہونے کی وجہ سے آئے روز ایکسی ڈینٹل کیس آتے ہیں انچارج ڈاکٹر کی چھٹی،کورٹ کیس یا فیلڈ میں جانے کیوجہ سے ایمرجنسی کی صورت مین مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے لہذا محکمہ صحت کے ارباب بست و کشاد سے اس انتہائی فوری اور اہم نوعیت کے مسلے پر رورل ہیلتھ سینٹر مندرہ کے لیے کم از کم دومیل اور ا یک فی میل ڈاکٹر تعینات کریں تاکہ ایمر جنسی اور حادثات کی صورت میں ہونے والی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جاسکے البتہ مندرہ کے مسائل کی ذمہ دار سابقہ اور موجودہ منتخب قیادتیں ہیں وہاں اس سے بڑھ کر محرومیوں پسماندگی اور مسائل کے ذمہ دار حلقہ عوام ہیں جنہوں نے کبھی بھی قیادتوں کے انتخاب کے وقت ان کی اہلیت و پرکھنے کے بجائے مامے، چاچے،برادریوں،رشتہ داریوں، قرابت داریوں اور دوستیوں کو اہمیت دیتے ہوئے یونین کونسلوں سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلی تک بیشتر ایسے امیدواروں کو چنتے رہے جنہوں نے عوامی اور علاقائی مفادات کے بجائے اپنے محل چوبارے بناتے اور تجوریاں بھرتے رہے۔