ملک مزید لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا 230

ملک مزید لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس وبا کی وجہ سے پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے لیکن یہ وائرس اب بھی جان چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہر طرف اس کی وجہ سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ یقین جانیں یہ خوف و ہراس موت کا ہر گز نہیں ہے یہ بھوک کا خوف ہے۔ ہمارے ملک میں اگرچہ دیگر بہت سے ممالک کی بنسبت ا س کی تباہ کاریاں بہت کم رہیں لیکن معاشی طور پر اس نے عوام کا بھرکس نکال دیا۔ کورونا وائرس کی پہلی دو لہریں معاشی لحاظ سے کافی خوفناک تھیں، کیونکہ ان کی وجہ سے عوام کے کاروبار تباہ و برباد ہو گئے،لوگ بھوکے رہنے پر مجبور ہو گئے، پریشانی و خستہ حالی غریب و متوسط طبقے کا مقدر بن گئی۔
بہت سے افراد جن کے کاروبار صرف اس قابل تھے کہ وہ ماہانہ خرچ ہی بمشکل پورا کرتے تھے وہ لاک ڈاؤن کے دوران بالکل ختم ہو گئے۔ بہت سے کاروبار مٹ گئے اور ہزاروں ملازمین فارغ کر دیے گئے، جس سے بے روزگاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
کورونا وائرس کی دوسری لہر زیادہ خوفناک نہیں تھی کیونکہ اس میں جیسے تیسے کاروبار چلتے رہے اور عوام کا کم از کم جیب خرچ نکلتا رہا۔ اب وائرس کی تیسری لہر نے سب کو خوفزدہ کر رکھا ہے، تیسری لہر کے خوف سے لاک ڈاؤن کی باتیں چل رہی ہیں جنہوں نے عوام کو پریشان کر دیا ہے، غریبوں کا تو رنگ فق ہو گیا ہے اور ٹانگیں کانپنے لگی ہیں کہ کہیں خدا نخواستہ دوبارہ لاک ڈاؤن ہو گیا تو کہاں جائیں گے؟ اوپر سے حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی بھی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، عوام کی قوت خرید جواب دے رہی ہے۔ ہر پندرہ دن بعد پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی خبر آجاتی ہے اور کبھی اضافہ ہو بھی جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اتنی مہنگائی کے دور میں عوام دن رات محنت کر کے اپنے گھر کا نظام چلاتے ہیں لیکن لاک ڈاؤن لگا کر ان سے محنت کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے غریب بھوکے رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہماری حکومت کے پاس بھی اتنی دولت نہیں ہے کہ وہ عوام کی کفالت کر سکے، کفالت تو کیا کم از کم ٹیکس ہی کچھ کم کر دے لیکن حکومت تو ایسے مشکل وقت میں بھی بجائے ٹیکسوں میں کمی کرنے کے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا رہی ہے۔ اور وہ ٹیکس ملکی خزانہ بھرنے کی بجائے نہ جانے کہاں جا رہے ہیں کہ خزانہ ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لے رہا، ہر وقت حکومت کا یہی رونا ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے اسی بہانے عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادا جا رہا ہے لیکن اپنی کارکردگی کی بہتری کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ تمام تر پالیسیاں ویسی کی ویسی چل رہی ہیں، وہی نااہلوں کے ٹولے عوام پر مسلط کر رکھے ہیں جن میں کمی کی بجائے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جو ملکی خزانے پر ایک مستقل بوجھ بنے
ہوئے ہیں اور خزانے سے کروڑوں روپے ان پر لٹائے جا رہے ہیں۔ وہ بھی بس پریس کانفرنسوں میں گزشتہ حکومتوں کو لعن طعن کر کے اپنی کارکردگی اور اپنی ضرورت کا احساس دلا رہے ہیں اور ان کے عہدے بحال ہیں۔
تمام تر ملکی صورتحال کے پیش نظر کورونا وائرس کی تیسری لہر کے دوران لاک ڈاؤن کی بجائے کوئی اور پالیسی اختیار کرنی چاہیے تاکہ عوام کے کاروبار بھی چلتے رہیں اور وبا کا پھیلاؤ بھی کم سے کم رہے۔ پورے ملک میں لاک ڈاؤن کرنے کی وجہ سے دوبارہ عوام کی معاشی حالت بہت خستہ ہو جائے گی اس لیے سمارٹ لاک ڈاؤن کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ جن علاقوں میں کیسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے انہی علاقوں میں لاک ڈاؤن کیا جائے اور جن تعلیمی اداروں میں کیسز زیادہ ہوں انہیں ہی بند کرنا چاہیے، چند ایک تعلیمی اداروں میں کچھ کیسز کی وجہ سے پورے ملک کے تعلیمی ادارے بند کردینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ تعلیم کا پہلے ہی کافی ضیاع ہو چکا ہے اب مزید تعلیمی ادارے بند کرنے سے تعلیمی سرگرمیاں بہت زیادہ متاثر ہوں گیں۔ اسی طرح کاروبار بند کرنے کی وجہ سے مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی ناممکن ہو جائے گا۔ لہٰذا ایک دم پورے ملک پر لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے آسان ترین کام سے بہتر ہے تھوڑی سی سوچ وبچار کی جائے اور اس کا کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جو سب کے مفاد میں بہتر ہو کسی کا نقصان بھی نہ ہو اور کام بھی چلتا رہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں