اے جسد واحد امت کے مظلوم فلسطینی بھائیو، بہنوں، بیٹیو،بچو اور بزرگو! آج تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کے سامنے ظلم و ستم بربریت، چنگیزیت، ہولوکاسٹ یہ سب الفاظ بے معنی اور بے حقیقت ہیں۔ اس وقت جو کچھ تم پر گزر رہی ہے یا تمہیں پتہ ہے یا تمہارے خدا کو پتہ ہے باقی کوئی بھی اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ تاریخ انسانی کے اندر خندقوں کو کھود کے زندہ بھی لوگوں کو جلایا گیا ہے، تاریخ انسانی نے بہت کچھ دیکھا ہے لیکن جو آج تم پر بیت رہی ہے، اس نے تو پوری کائنات کو حیران کر دیا ہے۔ اج کی مہذب دنیا کے یہ بدترین کافر، بدترین ظالم، یہ اتنے گندے درندے ہیں کہ نمرود، فرعون، شداد، قارون ان کے سامنے پانی بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یاد رکھنا تمہاری اس حالت زار پر آسمان شکوہ کناں ہے۔ آسمان کے فرشتے بارگاہ الٰہی میں فریادرس ہیں، جیسے زمین پہلے کربلا کے شہیدوں کے خون سے لالہ زار ہوئی تھی اور اس وقت بھی زمین نے خون کے آنسو بہائے تھے۔ جگر گوشہ رسول کے کٹنے کا منظر پوری کائنات نے تماشائی بن کر دیکھا تھا اور نام نہاد مسلمانوں نے اس وقت بھی کوفیوں کی طرح ظالموں کے ساتھ مل کر فاطمہ و علی علیہ الصلاۃ والسلام کے گلشن کو اجاڑا تھا۔ آج پھر زمین وہی منظر دیکھ کے خون کے آنسو بہا رہی ہے، تمہاری کسمپرسی دیکھ کر فلسطین کے پھولوں نے چٹکنا اور کلیوں نے کھلنا بند کر دیا ہے۔ تمہارے بچوں کی لاشوں کے ٹکڑوں کو دیکھ کر جبرائیل علیہ السلام بھی تھرا اٹھے ہیں۔ تمہاری ملبے تلے دبی ہوئی لاشوں اور زخمیوں کی آہ و فریاد نے رب کریم و رب رحیم کے عرش کو ہلا ڈالا ہے۔ تمہاری آہوں اور سسکیوں کا جواب بارگاہ الٰہی سے بس آیا ہی چاہتا ہے۔
اے قبلہ اول کے محافظو! متی نصر اللہ۔ کا ورد کرنے والو! الا ان نصر اللہ قریب کا جواب بارگاہ الٰہی سے آیا ہی چاہتا ہے۔ غم نہ کرو پریشان نہ ہو۔ وہ علیم و خبیر رب جو رب العالمین ہے۔ جو اس کائنات کے ذرے ذرے سے واقف ہے، وہ تمہارے حال سے کبھی بھی غافل نہیں ہو سکتا۔ وہ کن فیکون کا مالک رب! جو ساری طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے، جس نے فرعون کو پانی میں غرق کیا، نمرود کو اپنی ادنی مخلوق مچھر کے ذریعے تباہ و برباد کیا، جس نے مکڑی کے جالے سے اپنے حبیب کائنات علیہ الصلاۃ والسلام کی حفاظت فرمائی، جس نے قارون کو زمین میں دھنسا دیا، جس قدرتوں کے مالک نے شداد کو جنت دیکھنی نصیب نہ کی، اور اس کو اپنی بنائی گئی جنت کے دروازے کے سامنے ہی ہلاک و برباد کر دیا۔ جس نے اپنے گھر کی حفاظت ابابیلوں سے کی اور ہاتھیوں کے بڑے بڑے لشکروں کو چھوٹے چھوٹے ابابیلوں سے کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔ وہ مالک کائنات تو تمہاری یہ حالت زار بنا کے انسانوں کے ضمیر کو چیک کر رہا ہے اور بالخصوص دو ارب کے قریب مسلمانوں کو دیکھ رہا ہے کہ یہ مسلمان اپنے قبلہ اول کے مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ بس امتحان ہے تمہارا بھی اور ہمارا بھی۔خوشی یہ ہے کہ تم اس امتحان میں اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی کامیاب ہو جاؤ گے اور خون کے آنسو رونے کا مقام یہ ہے کہ ہم دو ارب مسلمان اپنا سب کچھ بچا کر بھی اس امتحان میں ناکام ہو جائیں گے۔ جیسے اس مالک کائنات نے پہلے بھی مظلوموں کو ہمیشہ کے لیے ظالموں کے رحم و کرم پر کبھی نہیں چھوڑا ہے اب بھی وہ نہیں چھوڑے گا ان شاء اللہ۔ بس اپنے پیارے نبی جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان فرامین کو اپنے سینوں سے لگا کر رکھو کہ اخیر زمانے میں امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام ضرور آئیں گے۔ ان کے بعد حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا نزول ہوگا اور وہ دجال اور اس کے پیروکار یہودیوں کا اس قدر قتل عام کریں گے، کہ اگر یہودی کسی پتھر کے پیچھے بھی چھپیں گے تو وہ پتھر بول کے کہے گا کہ اے مسلمان! اے مجاہد! میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے اسے قتل کر ڈال۔
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں پھر ان یہود و نصاری اور ان کے چیلوں سے گن گن کر بدلے لیں گے ان شاء اللہ۔ یہ عیش و عشرت کے اندر ڈوبے ہوئے حکمران، اپنے عشرت کدوں میں چند دن کی موج مستی کر لیں۔ ان بطش ربک لشدید۔ بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ جیسے یہ آج تمہاری عزتوں کے لٹنے کا تماشہ دیکھ رہے ہیں کل ان کو سجین میں قید دیکھ کر ہم ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھیں گے ان شاء اللہ اور جیسے یہ آج کافروں کے ساتھ مل کے ہم اہل اسلام اور خلافت کی بات کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اسی طریقے سے ان شاء اللہ ہم جنت کے بالا خانوں میں بیٹھ کے ان کا مذاق اڑائیں گے اور یاد رکھنا اپنے دلوں کو’اپنے سینوں کو‘ اس بات سے ٹھنڈک پہنچانا وہ عالمی خلافت کا قیام ضرور ہوگا جس کی پیشین گوئی جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی پیاری اور پاکیزہ زبان اطہر سے ادا کیا ہے اور جن کی اج تک کوئی پیشین گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ پھر فرمایا کہ وہ عظیم ترین خلافت قائم ہوگی جس کی بنیاد منہج نبوت علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوگی۔
اے امت مسلمہ کے غیور و جسور فلسطینیو! جنہوں نے اس امت کو عزت و حرمت سے جینے کا فن سکھایا ہے۔ جنہوں نے اس امت کو جہاد کا بھولا ہوا سبق پڑھایا ہے۔ جنہوں نے عمر بن خطاب،خالد بن ولید، علی المرتضی، ابو عبیدہ بن جراح رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی جرات و بہادری کی داستانیں اس امت کو یاد کرا دی ہیں اور صلاح الدین ایوبی کی ہمت و عزم کی یادوں کو تازہ کیا ہے، میں پاکستان سے آپ کا ادنی سا بھائی رب کعبہ کی قسم اٹھا کے کہتا ہوں کہ ہمارے دل آپ کے ساتھ دھڑک رہے ہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے، یہ بندہ عاجز آپ کے ساتھ لڑنا مرنا چاہتا ہے، جو کچھ ہمارے پاس ہے ہم اپنا سب کچھ آپ پر نچھاور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امت مسلمہ کے یہ نام نہاد،بدترین،ہمارے اوپر مسلط شدہ، یہ حکمران ہمارے راستے کی رکاوٹ بن چکے ہیں۔ آپ کے درمیان اور ہمارے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہو چکے ہیں۔ لیکن کب تک یہ رکاوٹ بن کر کھڑے رہیں گے میرے رب کا وعدہ ہے کہ”والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا“ اور جو ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں ہم ان کے لیے راستے بنا دیتے ہیں اور بے شک اللہ ہمیشہ سے احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اخوکم فی اللہ!
وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم
ولا حول ولا قوۃ الا باللہ
297