پروفیسر محمد حسین
مصائب رنج و غم اور فکر انسان کے ساتھ ہیں ان کا دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے ان کی کیفیت آثار و اسباب کے اصول کے مطابق ہے ان کی بنیاد ہماری تقدیر ہے اور ان کے اثرات ہمارا تقدیرردعمل ہے ان کا تعلق خالصتا انسان کی اپنی ذات سے ہے اللہ انسان کے مصائب کا ذمہ دار نہیں حکم ربی ہے اللہ ایک ذر ے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اس سے دگنی کرتا ہے اور اس کے علاوہ اسے بڑا اجر دیتا ہے (النسائ) ہر انسان کے لیے یہ نہایت اہم سوال ہے کہ دنیا پر مصیبتیں کیوں آتی ہیں ؟کیوں آفات ناگہانی آتی ہیں جو چند لمحوں میں ہزاروں لوگوں کو ہلاک کر دیتی ہیں ؟یہ ایسے سوالات ہیں جو کبھی نہ کبھی انسان کے ذہن میں ضرور آتے ہیں قرآن پاک اس سلسلہ میں وضاحت کرتا ہے کہ مصیبتوں کا ذمہ دار اللہ نہیں اللہ کی صفت تو رحم و کرم ہے وہ خود فرماتا ہے کہ ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا ہے نبی کریم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے کافر بندے سے بھی اس کی ماں سے ستر گناہ زیادہ محبت کرنے والا ہے اس نے اپنی ذات پر مہربانی لازم کر لی ہے ہر حال کے لیے اس نے اپنی رحمت کو اپنے غضب پر فوقیت دی ہے ایسا مہربان خالق اپنے ہی بندوں پر ظلم نہیں کر سکتا انسان پر آنے والے سب مصائب اس کی اپنی ہی وجہ سے ہیں اور وہ اپنی بدقسمتی کا خود ہی ذمہ دار ہے سوال کرنے والے پوچھیں گے کہ انسان پر ان بدقسمتیوں کی ذمہ داری کیسے ڈالی جا سکتی ہے جبکہ انسان فطری طور پر اپنے فائدہ کے لیے بہت ہی لالچی ہے وہ ہمیشہ اپنے ہی فائدے کی بات سوچتا ہے تو غیر وہ اپنی بدقسمتی کا ذمہ دار کیسے ہو گا یعنی وہ ایسے کام کیوں کرے گا جو اس کی تباہی کا سبب بنیں گے ؟ قرآن پاک کا پیغام یہ ہے کہ انسان کو ازخود معلوم نہیں کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے اور کس میں نقصان ہے بھلائی کس میں ہے اور برائی کس میں ہے بلکہ وہ اپنی خواہشات کی اندھا دھند دوڑ میں تباہی کے گڑھے میں گرجاتا ہے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے چکر ہی میں ساری زندگی ضائع کر دیتا ہے اکثر فرد کا مفاد معاشرہ کے مفادسے ٹکراتا ہے اور یہی ٹکراو انسانی مصیبتوں کا سب سے بڑا سبب ہے یہی حال انسانیت کا ہے صرف ان کا خالق ہی جانتا ہے کہ بندوں کے لیے ان کی دنیاوی زندگی میں کیا بھلا ہے جو یہاں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کام آئے گا اس لیے اس نے ہرزمانہ اور ہرخطہ میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسانوں ہی میں سے اپنے رسول اور پیغمبر بنا کر بھیجے جو وحی کے لیے ان تک اپنے رب کا پیغام پہنچاتے رہے ہیں خیرو شر فرق سمجھاتے رہے ہیں اور لوگوں کے لیے صراط مستقیم کی نشاندہی کرتے رہے ہیں ان سب کے آخر میں خالق کائنات نے آخری نبی راہ ہدایت کی تکیمل کے لیے بھیجے آپ نے فرمایا ”مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ سے زائد پیغمبر بھیجے آپ نے ان سب پیغمبروں کو مکمل کر دیا آپ کی بعثت کی خبر ہر آنے والے رسول نے دی تھی آپ پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن الحکیم نازل ہوئی یہ تمام نبیوں کی تعلیمات کا تفصیلی صحیفہ ہے جو قیامت تک انسانیت کی ہدایت کے لیے کافی ہے اس کا حرف حرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبرائیل امین اپنے نبی پر اتارا تھا اب دنیا میں یہی ایک صحیح الہامی کتاب ہے قرآن پاک ہی تازہ ترین رہنمائی ہے جس کے احکامات پر چل کر انسان ایک بے خطر اور بہتر مستقبل پا سکتا ہے اور ان کی سب مصیبتوں کا علاج اس میں موجود ہے اگر انسانیت اس کتاب کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرے گی تو وہ ہمیشہ حفاظت سے رہے گی مصائب و آلام اس کے جسم کو چھو تو سکتے ہیں لیکن انسان کی روح ان سے آزاد رہے گی بے شک جو اللہ کے بندے ہیں انھیں نہ تو خوف ہے اور نہ کوئی غم ہو گا اگر وہ اس رہنمائی کو چھوڑ کر کوئی اور دوسرا راستہ تجویز یا اختیار کرتے ہیں تو وہ آنے والی آفات آلام اور مصیبتوں کے خود ذمہ دار ہیں قرآن پاک بتاتا ہے کہ روز محشر ہر فرد کا الگ الگ حساب ہو گا اور جو کچھ اس نے اپنی دنیاوی زندگی میں کمایا ہو گا اس کے مطابق جزا وسزا ملے گی جب ایک فرد اللہ کے احکام نا فرمانی کرتا ہے تو وہ شاید اس زندگی میں سزا سے بچ جائے لیکن جب معاشرے کی اکثریت یا پوری قوم اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نفی کرتی ہے تو اسے ضرور اس کے گناہوں کی اجتماعی سزا ملتی ہے جب اللہ کا حکم آجاتا ہے تو گہنگار اور نیک سبھی اس میں پس جاتے ہیں بلکہ ایسی آبادیوں کے نام نہاد نیک لوگوں پر عذاب پہلے آتا ہے حضور نبی پاک سے روایت ہے کہ پچھلے زمانوں میں کسی قوم کی بڑھتی ہوئی برائی اور اصول خداوندی سے بغاوت کو دیکھ کر اللہ نے فرشتوں کو ان پر عذاب لانے کا حکم دیا اس پر فرشتوں نے کہا کہ یا اللہ اس قوم میں تو تیرے کچھ نیک بندے رہتے ہیں عذاب میں تو وہ بھی تباہ ہو جائیں گے اللہ نے فرمایا میرے ان نام نہاد بندوں کو سب سے پہلے سزا دینا چاہیے اس لیے کہ وہ اپنی نیکی کے زعم پر قناعت کر کے بیٹھے رہے اور انھوں نے بدی کو روکنے کی کوشش نہیں کی قرآن پاک کے مطابق جب کسی معاشر ے کی اکثریت اخلاقی پستی کی حدیں پھلانگ جاتی ہے اور اللہ کے قانون کو نظر انداز کرتی ہے تو ان کے لیے تباہی اور آفت ناگہانی مقرر ہو جاتی ہے لیکن اللہ رحیم و کریم ہے اس کے بعد بھی ان کو سدھرنے کے مواقع مہیا کیے جاتے ہیں اس سلسلے میں قرآ ن پاک باربار قوموں کی ان بد اعمالیوں کا ذکر کرتا ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے قانون خداوندی سے بغاوت کی بالآخر وہ ذلیل و خوار ہوئے اور پھر صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے قرآن پاک ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ قوموں پر عذاب بے شمار اشکال میں ظاہر ہو سکتے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر متعدی بیماریوں مثلا کورونا وائرس،طاعون ،ایڈز وغیرہ کا پھیلاو،اندرونی انتشار اور جھگڑے ،دیگر اقوام کا غلبہ ‘ غربت اور معاشرہ میں افراتفری ،زلزلے ‘حادثات ‘ آتش فشانی ‘ ّآندھیاں ‘ طوفان ‘ سیلاب ‘ بے وقت بارشیں ‘ ّآسمانوں پر سے شہاب کا گرنا اور کئی دیگرتباہیاں شامل ہیں ضرورت اس بات کی ہے ہم ان سے سبق حاصل کریں اور اپنے آپ کو عذاب سے بچائیں
264