1886 ء میں امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم وزیادتی کے خلاف آواز بلند کی جسے سرمایہ داروں نے پولیس کے ذریعے کچلنے کی مذموم کوشش کی پولیس کے تشدد سے چار مزدور مارے گے (آپ نے دیکھا کہ سرمایہ دار اور جاگیر دار کی ازل سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ جو اس کے ماتحت ہیں ان کو سر نہ اٹھانے دیا جو جو کوشش کرے اسے طاقت سے کچل دو اور پولیس ہمیشہ ان کی غلام رہی ہے آج بھی یہی ہورہا ہے) یہ پہلی آواز تھی جو مزدور نے اپنے حق کے لیے بلند کی ان کی اس قربانی کی یاد میں ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے جس کا باقاعدہ آغاز 1889 میں ریمنڈ لیون کی تجویز پر 1890 میں پہلی مرتبہ یکم مئی منایا گیامزدور کا لفظ ہمارے ہاں عمومی طور پر ان لوگوں پر استعمال ہوتا ہے جو سامان مٹی سیمنٹ کی بوریاں اینٹیں وغیرہ اٹھاتے ہیں گھروں عمارتوں سڑکوں اور دیگر تعمیراتی کام کرتے ہیں جبکہ اسی کام کے ماہرین کو مستری اور کاریگر وغیرہ کے لفظ سے پُکارا جاتا ہے مزدور کے کام کو مزدوری کہتے ہیں جسے عربی میں کَسْب یا عمل سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ کے حساب سے دیکھا جائے تو ہر وہ کام جس کے بدلے میں اُجرت ملتی ہے وہ مزدوری میں شمار ہوتا ہے دنیا جہان میں کوئی ایک بھی ایسا طبقہ یا شعبہ نہیں ہے جس کے متعلق اسلامی تعلیمات میں اعتدال اور زمانی ضروریات کے موافق راہنمائی نہ ملتی ہو مزدوروں ملازموں اَجیروں اور ماتحتوں کے حوالے سے بھی تعلیماتِ اسلامیہ میں واضح راہنمائی موجود ہے دینِ اسلام نے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح مزدوروں کو بھی حقوق دئیے ہیں یعنی مزدوروں کے حقوق کی ادائیگی ان کی مزدوری و محنت کا بدلہ وقت پر دینا ان سے ان کی طاقت کے مطابق کام لینا کام لینے میں نرمی شفقت اور انسانیت سے کام لینا وغیرہ مزدوروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنے کے حوالے سے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے انہیں (یعنی غلاموں اجیروں اور مزدوروں کو) اتنے زیادہ کام کا مکلف نہ کرو کہ وہ ان کی طاقت سے زیادہ ہو اگر ایسا کرو تو ان کی مُعاوَنت بھی کرو (بخاری) مزدور سے پہلے کام لے لیا اور جب مزدوری اور اُجرت دینے کی باری آئی تو جھگڑا کھڑا ہوگیا مزدور زیادہ مانگتاہے کام والا کم دیتا ہے دینِ اسلام نے اس کا بھی حل پہلے ہی سے ارشاد فرما دیا چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے جب کسی اَجیر کو اُجرت پر رکھو تو اسے اس کی اُجرت پہلے ہی بتا دو (نسائی) ایک اور حدیثِ پاک میں ہے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مزدور کی اجرت اسے واضح بتا دینے سے پہلے کام لینے کی ممانعت فرمائی ہے (کنزالعمال)مزدوروں کی مزدوری نہ دینے والوں کو تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے میں قیامت کے دن تین افراد کامقابل ہوں گا(یعنی سخت سزا دوں گا) ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے وہ شخص جو کسی آزاد انسان کو بیچ دے اور پھر اس کی قیمت کھالے وہ شخص جس نے کوئی مزدور اُجرت پر لیا اور پھر اس سے کام تو پورا لیا لیکن اس کی اُجرت اسے نہ دی (بخآری) مزدور کی مزدوری بَروقت دینا اَخلاقی و شرعی دونوں طرح سے بہت ضروری ہے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو(ابن ماجہ) مزدوروں کو مالی و جانی تحفظ دینے میں دینِ اسلام سب سے آگے ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تو جنگ میں بھی ان مزدوروں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا جو لڑنے کے لئے نہ آئے
ہوں (ابوداؤد)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماتحتوں سے بدخلقی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو سکتا (ترمذی)آپ نے ارشاد فرمایا کہ ملازم اگر ستر بار غلطی کرے تو اسے معاف کر دو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں آپ (سن کر) چپ رہے پھر اس نے اپنی بات دھرائی آپ پھر خاموش رہے تیسری بار جب اس نے اپنی بات دھرائی تو آپ نے فرمایا ہر دن ستر بار اسے معاف کرو(أبو داود)ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمان ہیں ہمارے حکمران بھی مسلمان ہیں اور ہمارا ملک بھی ایک اسلامی اور فلاحی ریاست کا دعویدار ہے اور یکم مئی کو پورے ملک میں یوم مزدور کے نام پر چھٹی بھی کی جاتی ہے لیکن افسوس صد افسوس مزدور کے شب وروز میں کوئی تبدیلی نہیں وہ اسی طریقہ سے ستم برداشت کر رھا ہے وہ آج تک خوشحال نہیں ہو سکا اس کی وجہ ہے ہمارے حکمران وہ جن کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہوئے غریب مزدور کی بات کرتے ہیں وہاں وہ سارے بیٹھے ہوتے ہیں جو مزدور کے نام سے بھی نفرت کرتے ہیں اور نہ انہیں مزدور کے مسائل اور مشکلات سے آگاہی ہوتی ہے جب آگاہی ہو گی تو مسائل حل ہوں گے سونے پے سہاگہ پالیسی بھی وہی بنائیں گے تو مزدور کے اوقات کار میں تبدیلی کیسے ممکن ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ بھٹہ خشت اور فیکٹریوں میں جا کر مزدوروں کے مسائل سن کر پالیسی اور ان کی اجرت طے کی جائے۔
170