279

محمد اقبال المعروف ماما بالو

پہلے وقتوں میں جس معاشرے میں انسان زندگی گزارتا تھا وہ اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں سے مانوس ہوتا اور ان سے ہمدردی کے روابط و رشتہ بھی روا رکھتا تھا تاکہ معاشرے میں امن و آشتی کی فضا برقرار رہے آج ایسی شخصیت راقم کی تحریر کا حصہ ہے جو نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانات کیساتھ بھی بڑا پیار اور انس رکھتی ہے یہ شخصیت نہ صرف کلرسیداں بلکہ دور دراز کے علاقوں میں جانوروں کی بیماری کی صورت میں حیوانات کا علاج معالجہ کرنے میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے آج کل تو حیوانات کے ڈاکٹر ہر جگہ اپنی دوکان سجائے بیٹھے ہیں اور مال مویشیوں کے علاج معالجہ کا خوب معاوضہ وصول کرتے ہیں

تاہم آج ایسی شخصیت کا تزکرہ ہے جنہوں نے مال مویشیوں کی بیماری کی بنا پر اگر رات ایک بجے بھی کسی نے انکی دہلیز پر دستک تھی تو انہوں نے بیمار جانور کے علاج معالجے پر مالک مویشی کیساتھ جانے سے کبھی انکار نہیں کیا اور فوراً چلتا بنے۔اس شخصیت کا نام تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں اراضی خاص کے رہائشی جناب محمد اقبال صاحب ہیں آپ طول وعرض میں ماما بالو کے نام سے اپنی ایک خاص شناخت رکھتے ہیں آپ انتہائی ملنسار خوش اخلاق اور مزاقیہ پن شخصیت کے حامل ہیں

ماضی کی طرح آج بھی آپکو مال مویشیوں کی بیماری کی تشخیص کیلئے مدعو کیا جاتا ہے اور آپ بخوشی متاثر مویشی مالکان کے ہمراہ چل پڑتے ہیں آپ 1927 میں اراضی خاص میں پیدا ہوئے آپکے جدامجد کا اصل علاقہ آزاد کشمیر تھا،چوتھی پشت میں محمد زمان جو کہ محمد اقبال المعروف ماما بالو کے والد تھے کشمیر سے نقل مکانی کر کے اراضی خاص میں آکر آباد ہوئے آپکو یہاں آباد ہوئے 250 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔محمد اقبال،حاجی غلام محمد مرحوم،اور محمد اشرف مرحوم آپس میں سگے بھائی ہیں انکے بھائی غلام محمد مرحوم کا شمار اس دور میں علاقے کے منجھے ہوئے والی بال کے کھلاڑیوں میں ہوتا تھا محمد اقبال کے والد محمد زمان پرائمری پاس کرنے کے بعد اپنے بیٹے محمد اقبال کو مزید تعلیم دلوانا چاہتے تھے

مگر محمد اقبال کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا تھا والد کے بار بار تعلیم جاری رکھنے کے اصرار پر آپ گھر سے بھاگ کر رنگ پور ضلع جوہر آباد چلے گئے اور وہاں ملک محمد حسین سے مویشیوں کی بیماریوں کی تشخیص اور علاج معالجے کے بارے میں تعلیم حاصل کی اس وقت سے لے کر آج تک آپ مال مویشیوں کی بیماریوں کے کامیاب معالج تصور کیے جاتے ہیں حتی کہ آج کے وٹرنری ڈاکٹر بھی مویشیوں کی بیماریوں کی تشخیص اور نسخہ جات کے سلسلے میں آپکے مشوروں پر عمل کرتے ہیں آپکی عمر اسوقت 90 سال ہے،

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آج بھی آپ تندرست وتوانا ہیں اور روزانہ پیدل چلنا آپکا معمول ہے محمد اقبال صاحب نے پنڈی پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ماضی کے بارے میں بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل اراضی پنڈ میں چونکہ ہندو گھرانے کافی تعداد میں آباد تھے تو ان میں ایک ہندو ڈولی رام بھی پنڈ میں رہائش پذیر تھا جو دیوانہ تھا وہ اکثر چلتے چلتے یہ جملہ دہراتا رہتا تھا کہ ہندو کا ایک الگ وطن ہو گا اور اس ملک ہندوستان کے مندروں میں گھنٹیاں بجیں گی اور ساتھ مسلمان بھی آباد ہونگے بعدازاں تقسیم ہند سے اسکی یہ بات سچ ثابت ہوئی، محمد اقبال نے پرانی باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو سود پر مسلمانوں کو پیسے دیا کرتے تھے اور دوکان پر ادھار سودا سلف لینے پر بھی سود برقرار رہتا تھا ہندو مسلمانوں سے ایک پائی کے بدلے دو پائی گندم وصول کرتے تھے

ایک پائی 32 کلو پر مشتمل تھی اور مسلمان گھرانے ہندو کے قرض اور سود کی رقم میں ہمیشہ پھنسے رہتے تھے،محمداقبال المعروف ماما بالو آج بھی مال مویشیوں کے علاج معالجہ کے حوالے سے مویشی پال گھرانوں کو جانوروں کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے مفید دیسی نسخہ جات بطور علاج استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جس سے بیمار جانور کو افاقہ اور شفا یاب ہوتا ہے محمد اقبال صاحب نہایت خوش اخلاق اور ملنسار شخصیت ہیں انکی باتوں میں مزاحیہ پن آج بھی موجود ہے افسردہ چہروں پر اپنے مخصوص انداز گفتگو سے مسکراہٹیں بکھیر دیتے ہیں گاؤں میں یا دور دراز آپکا کوئی بھی جاننے والا بیمار ہو تو اسکی تیمار داری کیلئے فوراً آسکے گھر پہنچ جاتے ہیں اس عمر میں بھی آپ نے معاشرتی میل جول برقرار رکھا ہوا ہے اور ہر کسی کی خوشی غمی میں برابر شریک ہوتے ہیں اسکے علاؤہ بھی وقتاً فوقتاً چکر لگا کر اپنے گاؤں اور اردگرد لوگوں کی خبر گیری کیلئے آنا جانا آج بھی انکا روزانہ کا معمول ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں