موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں معاشی گراوٹ سے ملک اس وقت ایک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے زوال پذیر معیشت کی بحالی کے لیے اب زبانی جمع خرچ عوام کو تسلی دینے اور سیاستدانوں کے بلند و بانگ دعووں کی بجائے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں تاہم اس حوالے سے چیف آف سٹاف جنرل عاصم منیر کی جانب سے ملک کے کاروباری طبقے سے معیشت کی بہتری کیلئے ہونے والی حالیہ ملاقاتیں امید کی ایک کرن ہے آرمی چیف کی طرف سے ٹیکس وصولی سمگلنگ کی روک تھام ذخیرہ اندوزی ناجائز منافع خوروں اورچینی مافیہ کے کارندوں کے خلاف مؤثر اقدامات ملکی معیشت کے استحکام کیلئے فائدہ مند ثابت ہونگے آپ اس بات سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ صرف ایرانی پٹرول کی سمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ ساٹھ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے اس دھندے میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کو زمہ دار ٹھہرایا گیا ہے تاہم اس بات سے قطع نظر اگر ہم سیاستدانوں کے مقابلے میں ایک غریب کی حالت زار کا موازنہ کریں تو غریب ایک لمبے عرصے سے غربت کی چکی میں پس رہا ہے اور غریب کے معاشی حالات بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہے جبکہ ایک نوزائیدہ سیاست میں جلوہ گر ہونے والے سیاستدانوں کے اثاثے سیاست میں انٹری کے کجھ ہی عرصے بعد کئی گنا بڑھ جاتے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ سیاست میں حصہ لینے سے قبل سیاست میں آنے والوں کا معیار زندگی کوئی اتنا پرتعیش نہیں ہوتا مگر سیاسی میدان میں قدم رکھتے اور اقتدار میں آتے ہی انکے بینک اکاؤنٹ و اثاثوں میں کثیر رقم جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے اور عوام کے ٹیکس کے پیسے سے لگژری گاڑیوں میں گھومنے لگتے ہیں ان سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ آپ سیاست میں آنے سے قبل کیا تھے اور اب کیا ہیں جب تک ملک میں قانون کا بول بالا اور طاقتور قانون کے شکنجے میں نہیں آئے گا افسر شاہی اور منافع خوروں کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک ملکی معیشت میں بہتری کی امید رکھنا بے معنی ہے اب عوام کو دیکھنا یہ چاہیے کہ انکی ووٹوں سے منتخب ہونے والے ان سیاستدانوں کے پاس آخر جادو کی کونسی ایسی چھڑی ہے جو راتوں رات بغیر محنت کے انہیں کروڑ پتی بنا دیتی ہے
ڈالرز،پٹرول اور چینی سمگلنگ کی روک تھام سے ملکی معیشت میں استحکام آئے گا
چیف آف آرمی اسٹاف سے گزارش ہے کہ مختلف ادوار میں ملک پر حکمرانی کرنے والے طبقے کی سیاست سے قبل اور سیاست میں آنے کے بعد انکے اثاثہ جات کی مکمل شفاف انداز میں چھان پین کی جائے ناجائز ذرائع سے بنائے گئے اثاثے ضبط کیے جائیں اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ عوام کو احساس ہو کہ جنہیں وہ ووٹ کے ذریعے ملک کی اہم ذمہ داریاں سونپتے ہیں وہ کس قدر عوام کے خیرخواہ ہیں گو آرمی چیف اور نگران حکومت کی زیر سرپرستی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف بھرپور مہم جاری ہے ناجائز ذرائع سے ڈالر اور حوالہ ہنڈی کے کاروبار رقوم کی غیر قانونی طریقوں سے ترسیل کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کاروائیاں کی جا رہی ہیں تاہم کاروائیوں کا تسلسل سے جاری رہنا ضروری ہے سابق وزیراعظم عمران خان جو اس وقت اٹک جیل میں پابند سلاسل ہیں اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں وہ خطے کے بعض ممالک کی طرز حکمرانی سے متاثر ہو کر ملک پر مطلق العنان طرزحکمرانی کے قائل ہیں تاہم عوام روائتی سیاسی چہروں کے برعکس انہیں بطور نجات دہندہ کے طور پر دیکھ رہی تھی تاہم انہوں نے بھی ملک کی معاشی ترقی اورسیاسی استحکام لانے کے حوالے سے کوئی خاص فریضہ سرانجام نہیں دیا بلکہ عوام کو سبز باغ دکھانے کا سلسلہ جاری رہا ساڑھے تین سالہ دورحکمرانی کے دوران چور سپاہی کا کھیل کھیلتے رہے البتہ ملکی سیاست میں عدم برداشت کے نظریہ کو ضرور متعارف کرایا ہے انہوں نے خطابات کا سہارہ لے کر ملکی سلامتی کے اداروں پر تنقید اور افواج پاکستان کے خلاف ناپختہ ذہنوں میں نفرت اور بتدریج زہر افشانی کے بیج بونے کا عمل خاصہ خوفناک ہے جسکی ملک کو ایک لمبے عرصے تک قیمت چکانی پڑ سکتی ہے ملکی سیاست کا پہیہ نہ جانے کب کس کروٹ گھوم جائے یہ کسی کو معلوم نہیں جب ایک حکومت ختم ہوجاتی ہے اور نئی پارٹی اقتدار پر براجمان ہوتی ہے تو ملک معیشت کی تباہی کا زمہ دار پچھلی حکومت کو ٹھہرایا جاتا ہے تاہم ملکی معیشت کی تباہی کے ذمہ داروں کا تعین اور سزا وجزا کا عمل اکثر وبیشتر ادھورا ہی رہتا ہے کل کے قومی مجرم صادق اور امین کا سرٹیفیکیٹ لے کر دوبارہ اقتدار میں آجاتے ہیں وہی سیاست دان جن پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے داغ لگے تھے وہ ملک کے حکمران بن کر از سرنو غریب کی تقدیر بدلنے کے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں،کب،کہاں کیا ہوا عوام سب کچھ بھول کر روایتی سیاستدانوں سے بہتری کی امیدیں لگا بیٹھتے ہیں ہماری ملک کی سیاست چند چہروں کے گرد مسلسل گھوم رہی ہے جہاں سیاست دان اور طاقتور طبقہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اورغریب طاقتور کے آگے دو وقت کی روٹی کی بھیگ مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے اخرمیں انہی الفاظ کیساتھ غریب عوام سے اجازت چاہتا ہوں جتنا عطا ہو اُس پر شکر ادا کیجیے اور جہاں محرومی نظر آئے تو صبر کرلیجیے۔