پروفیسر محمد حسین
آج کل دنیا طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے ان سب فتنوں میں بنیادی اور سب سے بڑا فتنہ پیٹ ہے شکم پروری اور تن آسانی زندگی کا اہم ترین مقصد بن کر رہ گیاہے ہر شخص کی خواہش اور تمنا یہ ہے کہ لقمہ تراس کی لذت کام ودہن کا ذریعہ بنے اور یہ فتنہ اتنا عالمگیر ہے کہ بہت کم افراد اس سے بچ سکے ہیں ملازم ہو یا تاجر ‘ پروفیسر ہو یا ٹیچر ‘مسجد کا امام ہویا دینی درسگاہ کا مدرس اس فتنے میں سب ہی مبتلا نظر آتے ہیں زہدوقناعت ‘ورع وتقویٰ اور اخلاص وایثار جیسے اخلاق وفضائل کا نام ونشان نہیں ملتا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پورا عالم سازوسامان کی فراوانی کے باوجود حرص طمع ولالچ اور زرطلبی وشکم پروری کی بھٹی میں جل رہا ہے اور کرب واضطراب ‘بے چینی وبے اطمینانی اور حیرت وپریشانی کا دھواں چار سمت پھیلا ہوا ہے اس فتنہ جہاں سوز کا بنیادی سبب آخرت کا یقین بے حدکمزور اور آخرت کی نعمتوں اورراحتوں کا تصور تقریباََناپید ہوچکا ہے مادی نعمتیں اور ان کا تصور اس قدر غالب ہے کہ آج انسانوں کی عزت وذلت اور بلندی وپستی کی پیمائش تقویٰ اخلاص اخلاق کے پیمانے سے نہیں ہوتی بلکہ پیٹ اور جیب سے پیمانے سے ہوتی ہے مادیت کے اس سیلاب میں پہلے ایمان ویقین رخصت ہوا پھر انسانی اخلاق ملیا میٹ ہوئے پھر اسوہ نبوت سے وابستگی کمزور ہوکر اعمال صالحہ کی فضا ختم ہوئی پھر معاشرت ومعاملات کی گاڑی لائن سے اتری پھر سیاست وتمدن تباہ ہوااور اب مادیت کا یہ طوفان انسانیت کو بہمیت کے گھڑے میں دھکیل رہا ہے انفرادی بے اصولی اور آوارگی وبے راہ روی اور بے رحمی وشقاوت کاوہ دور دوہ ہے کہ الامان والحفیظ اس پیٹ کے فتنے نے ساری دنیا کی کا یا پلٹ ڈالی ہے دنیا بھر کے عقلاء اور دانشورپیٹ کی فتنہ کے ہولناک نتائج کی تدارک بھی کرنا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ علاج کے لئے وہی چیز تجویز کی جاتی ہے جووہ خود سبب مرض ہے رسول پاک ؐنے اس ہولناک مرض کی صیح تشخیص بہت پہلے فرمادی تھی چنانچہ ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے بخدا مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطاََ نہیں بلکہ اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے جیسا کہ تم سے پہلوؤں پر پھیلائی گئی پھرتم پھلوؤں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا تمہیں بھی برباد کر ڈالے (بخاری ومسلم )
یہ تھا وہ نقطہ آغاز جس سے انسانیت کا بگاڑشروع ہوا یعنی دنیا کو نفیس اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا پھر رسول پاک ؐنے تشخیص پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے لئے ایک جامع نسخہ شفابھی تجویز فرمایا جس کا ایک جز اعتقادی اور دوسرے عملی ہے اعتقادی جزیہ ہے کہ اس حقیقت کو ہر موقع پر مستحضر رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں یہاں کی ہر راحت وآسائش فانی ہے اور ہر تکلیف ومشقت بھی ختم ہونے والی ہے یہاں کی لذائذو شہوات آخرت کی بیش بہاء نعمتوں اور ابدالاآباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم سچ ہیں قرآن کریم اس اعتقاد کے لئے سراپادعوت ہے اور سینکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایاگیاہے سورۃاعلیٰ میں نہایت بلیغ اور جامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا کہ کان کھول کر سن لوکہ تم آخرت کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ دنیاکی زندگی کو اس پر ترجیح دیتے ہوحالا نکہ آخرت دنیا سے بدرجہا بہتر اور لازوال ہے عملی حصہ اس نسخہ کا یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں مشغول ہوا جائے اور بطور پرہیز کے حرام اور مشتبہ چیزوں کو نہ ہر سمجھ کران سے کلی پرہیز کیا جائے اور یہاں کے لذائذ وشہوات میں انہاک سے کنارہ کشی اختیار کی جائے دنیا کا مال اسباب ‘زن وفرزند‘خدیش وقربااور قبیلہ وبرادری کے سارے قصے وزندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدر ضرورت ہی اختیار کئے جائیں ان میں سے کسی چیز کو بھی دنیا میں عیش وعشرت اور لذت وتنعم کی زندگی گزارنے کے لئے اختیار نہ کیا جائے اور نہ یہاں کی عیش کوشی کو زندگی کا مقصد اور موضوع بنایاجائے ‘تعجب ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کی رائے ہوکہ دودھ ‘گھی ‘گوشت ‘چاول وغیرہ کا استعمال مضر ہے تواس کے مشورے اور اشارے سے تمام نعمتیں ترک کی جاسکتی ہیں لیکن خاتم الانبیاحضرت محمد ؐکے واضع ارشادات اور وحی آسمانی کے صاف احکام پر ادنیٰ سے ادنیٰ لذت کا ترک کرنا گوارا نہیں نبی کریم ؐاور آپؐ کی آل واصحاب کرامؓ کی زندگی اور معیار زندگی کو اول سے آخر تک دیکھاجائے تومعلوم ہوگا کہ دنیاکی نعمتوں سے دل بستگی سراسر جنون ہے صیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی قصہ مروی ہے کچھ لوگوں پر ان کا گزر ہوا جن کے سامنے بھنا ہو گوشت رکھا تھا انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ کو کھانے کی دعوت دی آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ محمد ؐ ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جوکی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی مہینوں مہینے گزر جاتے مگر کاشانہ نبوت میں نہ رات کو چراغ جلتا نہ دن کو چولہا گرم ہوتا تین تین دن کا فاقہ ہوتا کمر سیدھی رکھنے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھے جاتے اور اسی حالت میں جہاد وقتال کے مصر کے ہوتے الغرض زہدوقنات ‘فقروفاقہ ‘بلند ہمتی وجفاکشی اور دنیا کی آسائشوں سے بے رخی اور نفرت وبیزاری سیرت طیبہ کا طفرائے امتیاز تھی اپنی حالت کا اس پاک زندگی سے مقابلہ کرنے کے بعد ہم میں سے ہر شخص کو سوچنا چاہیے ہمارے یہاں سارا مسئلہ روٹی اور پیٹ کا ہے اور ادھر یہ سرے سے کوگی مسئلہ ہی نہیں تھا ظاہر ہے کہ یہ زندگی بالقصد اختیار کی گئی تھی تاکہ آئندہ نسلوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے ورنہ آپ ؐ چاہتے تو آپؐ کومن جانب اللہ کیا کچھ نہ دیا جاسکتا تھا ؟مگر دنیا کا یہ سازوسمان جس کے لئے ہم مر کھپ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قدر حقیر وذلیل ہے کہ وہ اپنے محبوب ومقرب بندوں کو اس سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے بعض انبیاء کو عظیم الشان سلطنت بھی دی گئی مگر ان کے زہدوقناعت اور دنیا سے بے رغبتی اور بے زاری میں فرق نہیں آیا ان کے پاس جوکچھ تھا وہ دوسروں کے لئے تھا اپنے لئے کچھ نہ تھا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مادیت کے فتنے سے محفوظ رکھے( امین
144