چند روز قبل روس سے فون آیا کہ ضیاء بھائی! میں پاکستان آنا چاہتا ہوں اور اپنی بقیہ ڈگری پاکستان میں مکمل کرنا چاہتا ہوں یہاں سے مائیگریشن کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہاں کچھ مسائل پیش آرہے ہیں جن کی وجہ سے یہاں ڈگری مکمل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے جواب دیا بھائی میرا تو کبھی ایسے کسی عمل سے واسطہ نہیں پڑا اس لیے مجھے معلوم نہیں ہے بہرحال میں کسی سے معلوم کر تا ہوں اگر کچھ معلومات مل گئیں تو آپ کو بتا دوں گا۔ یہ حافظ ہارون بھائی تھے جو روس میں ایم بی بی ایس کر رہے تھے اور اب ڈگری مکمل ہونے میں دو برس رہ گئے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک دوست حافظ مصطفی سے معلوم ہوا کہ ہارون بھائی چھٹیوں پر پاکستان آئے ہیں، پھر خود ہی ایک دن ملاقات کے لیے میرے پاس سکول میں آگئے۔ روس میں ایم بی بی ایس کے سٹوڈنٹ تھے لیکن انہیں دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ کسی مدرسہ کے طالب علم ہیں۔ سر پر ٹوپی، چہرے پر داڑھی، پائنچے ٹخنوں سے اوپر، ہاتھ میں تسبیح۔ یونیورسٹی کے ایک بائیس تئیس سالہ نوجوان طالب علم کا یہ حلیہ دیکھ کر رشک آ رہا تھا۔ کچھ دیر میرے پاس بیٹھے بات چیت ہوئی اور چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد حافظ مصطفی نے بتایا کہ ہارون بھائی واپس روس جا رہے ہیں، میں نے پوچھا کہ کیا ان کی مائیگریشن کا کام نہیں ہوا انہوں نے بتایا کہ نہیں۔ پھر دو تین دن کے بعد مصطفی بھائی نے بتایا کہ ہارون بھائی کا موٹر سائیکل پر ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور کل سے ہوش میں نہیں آرہے۔ یہ سن کر نہایت افسوس ہو ا اور ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ حادثے کے ایک ہفتے بعد آج صبح نماز فجر کے بعد مسجد میں اعلان ہوا کہ حافظ
ناصر صاحب کے بیٹے حافظ ہارون انتقال کر گئے ہیں یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری، مجھے شیخ سعدی ؒ کا شعر یاد آگیا:
خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند
یعنی اے فلاں (اے انسان) کوئی نیکی کا کام کر اور اپنی عمر کو غنیمت سمجھ، اس سے پہلے کہ آواز آئے ’فلاں نہ رہا‘۔ ابھی ہارون بھائی کی نماز جنازہ ادا کر کے آیا ہوں اور نہایت صدمے کی حالت میں کالم لکھنے بیٹھا ہوں۔ حافظ ہارون (مرحوم) حافظ ناصر صاحب کے اکلوتے بیٹے تھے، مگر انہیں دیکھ لگتا نہیں تھا کہ کسی کی اکلوتی لاڈلی اولاد ہیں، نہایت سلجھے ہوئے اور متقی نوجوان تھے۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائیں۔ ان کے والد حافظ ناصر صاحب جو ان کی نماز جنازہ میں صبر کی تصویر
بنے ہوئے تھے انہیں اجر عظیم عطا فرمائیں۔ حافظ ہارون کی موت پر دنیا کی بے ثباتی اور موت کی بے رحمی مزید کھل کر سامنے آئی۔ دنیا میں جو شخص آیا اس نے دنیا سے جانا ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے جس کا انکار کوئی انسان نہیں کرتا۔ دنیا میں رسولوں کا انکار کرنے والے، آسمانی کتابوں کا انکار کرنے والے حتیٰ کہ اللہ رب العزت کی ذات کا (نعوذباللہ) انکار کرنے والے لوگ موجود ہیں لیکن موت کا انکار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ ہر شخص اپنی آنکھوں سے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے اور یہ بھی دیکھتا ہے کہ ہم سے پہلے زمانے کا کوئی شخص آج دنیا میں موجود نہیں ہے لہٰذا ہر ایک نے دنیا سے ضرور جانا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بارہا فرمایا، ترجمہ: ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ موت سے فرار کسی صورت ممکن نہیں ہے دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ آئے،
بڑے طاقتور لوگ آئے جنہوں نے پوری دنیا کو زیرنگیں کر لیا مگر موت سے وہ بھی نہ بچ سکے۔ اللہ رب العزت کے پیارے لوگ، اللہ کے رسولوں کا بھی موت سے واسطہ پڑا۔ یعنی کوئی نیک ہو یا بد، طاقتور ہو یا کمزور اسے موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے۔ جب موت سے فرار ممکن نہیں تو پھر موت کی تیاری کر لینی چاہیے۔ اگر ہم نے موت کے منہ میں جانا ہی ہے تو کیوں نہ اس کی تیار ی کر لی جائے تاکہ وہ آسان ہو جائے۔ اس کی تیاری کا سب سے بہتر طریقہ وہ ہے جو خود رسول اکرم ﷺ نے بتا دیا کہ ”لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز موت کو کثرت سے یاد کرو“۔ یعنی سب آسان طریقہ یہی ہے کہ موت کو یاد کیا جائے اور دل و دماغ میں یہ خیال بٹھایا جائے کہ میں نے مرنا ہے اور اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور یہ بلاوا کب آجائے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ جن لوگوں کو ہم اچانک مرتے ہوئے دیکھتے ہیں ہماری ہی طرح ان کے بھی وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ آج میں ٹھیک ٹھاک ہنس کھیل رہا ہوں اور کل اس وقت تک میں قبر میں بھی اتر چکا ہوں گا۔ لہٰذا ہر وقت موت کے لیے تیار رہنا چاہیے نہ جانے کب بلاوا آ جائے اور ہم دنیا سے نہ چاہتے ہوئے بھی نکال کر رب کے سامنے کھڑے کر دیے جائیں جہاں ہمیں اپنے تمام اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ اگر تو نیک اعمال کیے ہوں گے دنیا میں اپنے اللہ کی مانی ہو گی تو وہ منازل آ سان ہو جائیں گی اور اگر یہاں خدا نخواستہ اپنی مرضی کی زندگی گزاری اور شیطان کی مانتے رہے تو پھر معاملہ بہت مشکل ہو جائے گا۔ قبر مٹی کا ایک ڈھیر نہیں ہے بلکہ یہ یا تو جنت کا ایک باغ ہے یا جہنم کا گڑھا۔ یہ وحشت اور تنہائی کا گھر ہے جسے اللہ کی عبادت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے ساتھ منور کرنا ہے۔ موت کو کثرت سے یاد کرنا انسان کو دنیا سے بے رغبت کر دیتا ہے اور اللہ کی عبادت کی طرف رغبت دلاتا ہے۔
189