94

قومی زبان /محمد انشال

دنیا میں جب بھی کوئی بچہ آتا ہے تو اس کے والدین اس کا ماحول اس کے عزیز رشتہ دار اسے ایک زبان سکھاتے ہیں اسے ایک ثقافت دیتے ہیں اسے ایک تہزیب دیتے ہیں جو اس بچے کی پہچان بنتاہے ‘ہم زیادہ دور نہیں جاتے صرف ملک پاکستان کی ہی بات کریں تو مختلف زبانیں مختلف لوگوں کی پہچان ہیں جیسے اگر کوئی پشتو بولے تو ہمارے زہن میں ایک دم خیال آتا ہے کہ یہ یقیناًپٹھان ہو گا اگر کسی شخص کی زبان سندھی نکلے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کا تعلق سندھ سے ہو گا لیکن اگر کوئی پنجابی بولے تو ہم کہہ سکتے ہیں اس کا تعلق پنجاب سے ہو گا اسی طرح اوربھی بہت سے علاقوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جو ان لوگوں کی پہچان ہیں اگر ہمارے کوئی حکمران کوئی ایسا حکم دے کہ پورے پاکستان میں ایک ہی زبان بولی جائے تو وہ اہل زبان جو کہ کم تعداد میں ہوں گے انکے کے لئے تو درست ہے لیکن باقی اکثریت مل کر کوئی ایسی زبان ایجاد کرے گی جس کا علم ہمارے حکمرانوں کو بھی نہیں ہو گاآج ہمارے ملک میں قومی زبان تو اردو ہے لیکن نہ تو اردوبولنے دی جاتی ہیں نہ ہی امیر اور حکمران طبقہ پڑھتا ہے اردو صرف غریبوں کو ہی پڑھائی جاتی ہیں کہتے ہیں کہ انسان پر صہبت کا بہت اثر ہوتا ہے اس لحاظ سے تو ہمارے حکمرانوں پر سوسال کی انگریز حکومت کا کافی اثر ہوا یا پھر ہمارے حکمران غلامی کی فاد اری ابھی تک نبھا رہے ہیں ہمارے حکمران صرف یہ تصور کرتے ہیں کہ انگریزی ہی ترقی کی ضمانت ہے یہی زبان بول کر اور رائج کر کہ ہم پاکستانی قوم کو ترقی کے جہاز پر بٹھا سکتے ہیں ہمارے حکمران یہ خیال کرتے ہیں کہ امریکہ نے انگریزی بول کر ترقی کی تو ہماری ترقی کا ٹکٹ بھی انگریزی کے پاس ہے لیکن انہیں یہ کون سمجھائے کہ انگریزی ان کی قومی زبان تھی جو انہیں سمجھ آتی تھی لیکن ہماری قومی زبان اردو ہے اگر ایسا ہوتا تو آج چائنہ ترقی یافتہ ملک نہ ہوتا آج چائنہ اقوام متحدہ کا مستقل رکن نہ ہوتا آج غریب کے بچوں کو اس لیئے اردواور حکمرانوں کے بچوں کو اس لیئے انگریزی پڑھائی جاتی ہیں تا کہ انگریزی کی اس گندی تہہ کے نیچے غریبوں کو غلام ہی بنا کر رکھا جائے اور یہ غریب ساری زندگی ہمارے سامنے تالیاں بجاتے رہیں اور ہمارے محتاج رہیںیہ کہاں کا انصاف ہے ‘ یہ کہاں کا قانون ہے کہ امیروں کو اور حکمرانوں کے بچوں کو انگریزی اور غریبوں کواردوپڑھائی جائے یہ برابری کے متوالے قانون بنانے والے خود کو کیوں قانون میں شامل نہیں کرتے خود کو کیوں قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں اگر یہ حکمران طبقہ ایسے کرے گا تو قوم کیسے ترقی کرے گی آج جب بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہیں کہ اردو رائج ہونی چاہیے دفتری زبان اردو ہونی چاہیے ہمارے حکمران اور امیر طبقہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ اردو رائج ہو اور غریب ترقی کرے اورجب غریب ترقی کرے گا تو یہ ملک بھی ترقی کرے گا یا پھر ہمارے حکمرانوں کو ڈر ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کو کہتے ہیں کہ تمہیں سکول کے سپیلنگ نہیں آتے اور اگر اردو رائج ہو گئی تو ماتحت افسران کو کہیں گے کہ جناب سکول ’’س‘‘ سے ہوتا ہیں ’’ص‘‘ سے نہیں اسی خوف کے ڈر سے ہمارے حکمران اردو رائج نہیں ہونے دیتے کہ کہیں یہ ہماری تھوڑی سی جھوٹ کی عزت نہ اتر جائے لیکن اے حکمرانو یاد رکھوایک دن آنے والا ہے جب تم سے پوچھ ہوگی کہ تم نے اپنی زبان کے ساتھ کیا کیا اللہ کے خوف سے ڈرو اے حکمرانو تمہیں غریبوں کی بھلائی کے لیئے حکمران بنایا گیا ہے عوام کے مفاد کی سوچو نہ کہ اپنے مفاد کی کیونکہ وہ دن دور نہیں جب تمہیں جواب دینا ہو گا۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں