599

قلعہ رام کوٹ

سولہویں اور سترہویں صدی میں کشمیر کے مسلمان حکمرانوں نے کئی قلعے تعمیر کروائے، جن میں سے ایک رامکوٹ قلعہ بھی ہے، جو اب منگلا جھیل سے گھرا ہوا ہے۔
قلعہ جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے، جہاں سے چمکدار نیلے پانیوں کا نظارہ بہت دیدہ زیب لگتا ہے۔ اپنے غیر معمولی طور پر منفرد طرزِ تعمیر کی بناء پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ منگلا اور مظفرآباد قلعوں سے ملتے جلتے طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید اسی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔

قلعے تک پہنچنے کے لیے آپ کو منگلا ڈیم پر واٹر اسپورٹس کلب سے ایک کشتی میں بیٹھنا ہوگا، اور تقریباً 10 منٹ کے سفر کے بعد آپ جھیل کے شمالی حصے میں پہنچ جائیں گے۔ قلعے تک پہنچنے کا دوسرا راستہ اسلام پورہ جبر براستہ نوٹلہ اور نوٹلہ سے بذریعہ کشتی چالیس منٹ میں قلعے تک جاتا ہے۔ یہاں آپ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک عظیم الشان قلعہ دکھائی دے گا۔ اس کے علاوہ سڑک کے ذریعے بھی قلعہ تک جایا جاسکتا ہے۔
ضلع میرپور کی تحصیل ڈڈیال سے ہوتے ہوئے سیاکھ اور سیاکھ سے بھیلی بھٹار تک سڑک سے جایا جاسکتا ہے آگے آدھے گھنٹے کی مسافت کشتی سے ممکن ہے کیونکہ قلعہ پانی سے گھرا ہوا ہے لہذا کشتی وہاں آپ کو مقامی افراد سے ہی مل جائے گئی
تھوڑی، کھڑی چڑھائی کے بعد آپ قلعے تک پہنچ جائے گئے ماضی میں اس کا یہ پیچیدہ محلِ وقوع اس کے لیے کافی فائدہ مند رہا ہوگا، لیکن آج کل یہی محلِ وقوع اس کی علیحدگی اور تنہائی کی وجہ بن گیا ہے۔ اسی نسبت سے کم ہی لوگ یہاں آتے ہیں۔
ویسے تو قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہ
‎چٹان کے آخری سرے پر واقعے چبوترے سے ایک طرف دریائے جہلم تو دوسری طرف پونچھ کی خاموش لہروں کا نظارہ ہوتا ہے۔ ماضی میں کبھی شہزادے تو کبھی کوئی ڈوگرا مہا راجہ اسی جگہ سے قدرت کی بنائی ہوئی رعنائیوں کے نظارے لیتے
تھا۔ صدیوں بعد منظر بھی بدل جاتا ہے اور دیکھنے والے بھی
ساٹھ (60) کی دہائی میں بننے والے منگلا ڈیم اور جھیل نے قلعے ایک جزیرے کی شکل دے دی ہے، لیکن وہ چبوترہ جہاں سے شہزادے اور ڈوگرا مہاراجے دو دریاؤں کا نظارہ کیا کرتے تھے، مٹی کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے


قلعہ کی مکمل تاریخ
راجہ عبدال سلام کیانی

یہ قلعہ 1150 میں گکھڑ حکمران راجڑ خان نے بنوایا تھا۔
قلعہ جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے، جہاں سے چمکدار نیلے پانیوں کا نظارہ بہت دیدہ زیب لگتا ہے۔ اپنے غیر معمولی طور پر منفرد طرزِ تعمیر کی بناء پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ منگلا اور مظفرآباد قلعوں سے ملتے جلتے طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید اسی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔

قلعے تک پہنچنے کے لیے آپ کو منگلا ڈیم پر واٹر اسپورٹس کلب سے ایک کشتی میں بیٹھنا ہوگا، اور تقریباً 10 منٹ کے سفر کے بعد آپ جھیل کے شمالی حصے میں پہنچ جائیں گے۔ یہاں آپ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک عظیم الشان قلعہ دکھائی دے گا۔ اس کے علاوہ سڑک کے ذریعے بھی قلعہ تک جایا جاسکتا ہے لیکن تھوڑا سفر کشتی پر کرنا پڑے گا
ضلع میرپور کی تحصیل ڈڈیال سے ہوتے ہوئے سیاکھ اور سیاکھ سے بھیلی بھٹار تک سڑک سے جایا جاسکتا ہے آگئے آدھے گھنٹے کی مسافت کشتی سے ممکن ہے کیونکہ قلعہ پانی سے گھرا ہوا ہے لہذا کشتی وہاں آپ کو مقامی افراد سے ہی مل جائے گئی
تھوڑی، کھڑی چڑھائی کے بعد آپ قلعے تک پہنچ جائیں گے ماضی میں اس کا یہ پیچیدہ محلِ وقوع اس کے لیے کافی فائدہ مند رہا ہوگا، لیکن آج کل یہی محلِ وقوع اس کی علیحدگی اور تنہائی کی وجہ بن گیا ہے۔ اسی نسبت کم ہی لوگ یہاں آتے ہیں۔
ویسے تو قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔
‎چٹان کے آخری سرے پر واقعے چبوترے سے ایک طرف دریائے جہلم تو دوسری طرف پونچھ کی خاموش لہروں کا نظارہ ہوتا ہے۔ ماضی میں کبھی شہزادے تو کبھی کوئی ڈوگرا مہا راجہ اسی جگہ سے قدرت کی بنائی ہوئی رعنائیوں کے نظارے لیتا
تھا۔ صدیوں بعد منظر بھی بدل جاتا ہے اور دیکھنے والے بھی
ساٹھ (60) کی دہائی میں بننے والے منگلا ڈیم اور جھیل نے قلعے ایک جزیرے کی شکل دے دی ہے، لیکن وہ چبوترہ جہاں سے شہزادے اور ڈوگرا مہاراجے دو دریاؤں کا نظارہ کیا کرتے تھے، مٹی کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ پتھر کی وہ چوڑی فصیل جن پر چلتے ہوئے پہرے دار گرد و نواح سے آنے والے حملہ آوروں پر نظر رکھتے تھے ویرانی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ بارویں صدی میں بنایا جانے والا رام کوٹ کا قلعہ تاریخ کی کئی فراموش کہانیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ دریائے جہلم کا پانی قلعے کی ایک جانب سے ہوتا ہوا دوسری طرف منگلا جھیل میں گر جاتا ہے۔ یہ قلعہ بند حصے میں جانے اور باہر آنے کا واحد راستہ ہے۔ فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں بنائی گئی ہیں، جو یقیناً توپوں کو پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال ہوا کرتی ہوں گی۔ قلعے کے اندر دو پانی کے تالاب آج بھی موجود ہیں جو قلعے کے مکینوں کی پانی کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ کیوں کہ یہاں پانی نہیں ہے اور دریا سے پانی پہاڑ کی چھوٹی تک لانا بہت دشوار ہے۔

قلعہ 90 کی دہائی کے اواخر تک بھی نظرانداز کردہ تھا، جب اسلام آباد کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر انیس الرحمان پہلی بار مچھلی پکڑنے کے لیے منگلا آئے، اور رام کوٹ تک آ پہنچے۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے بتایا کہ جس دن وہ پہلی بار یہاں آئے، اس دن یہ مکمل طور پر تباہ حال اور پہنچ سے باہر تھا، جبکہ مٹی کے ڈھیر اور جھاڑیوں نے قلعے کے انچ انچ کو چھپا رکھا تھا۔
ڈاکٹر رحمان نے وفاقی وزارتِ آثارِ قدیمہ سے رابطہ کیا تو حیران کن طور پر پایا کہ وزارت کے پاس قلعے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر قلعے کی بحالی میں مدد کی پیشکش کی، اور سرکاری اجازت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اس مشن میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثارِ قدیمہ کے پروفیسر عبدالرحمان اور ماہرِینِ تعمیرات سہیل اکبر خان نے بھی حصہ لیا، اور ایک سال کی مسلسل محنت کے بعد وہ کھنڈرات سے ایک زبردست قلعہ سامنے لانے میں کامیاب رہے۔
مرکزی داخلی دروازے پر چھت اور دروازہ لگائے گئے، پانی کے تالابوں سے مٹی صاف کی گئی، ، اور پرانی توپوں کو کنگروں پر نصب کیا گیا۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے بتایا کہ انہوں نے پاک فوج سے رابطہ کیا، جس نے کوئٹہ سے منگوائی گئی پرانی طرز کی دو توپیں فراہم کیں، تاکہ انہیں قلعے پر (نمائشی طور پر) نصب کیا جا سکے۔ لیکن آج وہاں صرف ایک
ہی توپ موجود ہے
دیگر کئی تاریخی ورثوں کی طرح رامکوٹ کی تعمیر کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں موجود ہیں۔
فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے لیے کنگرے، اور بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں (جیسے منگلا، مظفر آباد، برجھان، اور تھروچھی) کی طرح رام کوٹ قلعہ تاریخی ریکارڈز میں اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ کشمیر کے 1841 کے ایرو اسمتھ نقشے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن مشہور سفری مصنف سلمان راشد کے مطابق مہاراجہ کشمیر کے مقرر کردہ ماہرِ ارضیات فریڈریک ڈریو 1875 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Jummoo and Kashmir Territories: A Geographical Account میں رامکوٹ قلعہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ڈریو کے مطابق توگلو یا تغلو نامی ایک گکھڑ نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا، جبکہ گکھروں کے بعد یہ ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔
گذشتہ دہائی سے رامکوٹ قلعہ تباہی کے راستے پر تیزی سے گامزن ہے۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے جو بحالی کا کام کیا تھا، وہ روز مرہ کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اپنا زیادہ تر اثر کھو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 2005 کے زلزلے میں بھی اس قلعے کو شدید نقصان پہنچا، جبکہ آزاد جموں و کشمیر حکام کی غفلت بھی اس کی ذمہ دار ہے۔
اگر اسے مکمل طور پر بحال کر کے یہاں ضروری سہولیات دستیاب کردی جائیں، تو رام کوٹ قلعہ سیاحوں کی پسندیدہ جگہ بن سکتا ہے جس سے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو خاصی آمدنی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کشمیر کی زمین اور عوام کی تاریخ، ورثے، اور ثقافت میں بھی چار چاند لگا دے گا۔
قلعہ پر جانے کے لیئے ایک اور بہت اچھا راستہ گوجرخان سے یو سی تھاتھی کے گاوں نوٹلہ سے جاتا ہے جو کہ بہت ہی مناسب ہے۔۔ادھر سے بہت مناسب ریٹ پر انجن بوٹ مل جاتی ہے جو قلعہ تک لے جا کر واپس بھی لے آتی ہے۔۔ ۔۔ قدرت کے حسین مناظر آپ کے منتظر ہیں۔۔
2018 میں میں نے سماء ٹی وی کی ٹیم لیکر اپنے ساتھیوں اسد کیانی جو کہ گڈاری میں ہمارے میزبان بنے اور راجہ پرویز کیانی کے ساتھ قلعہ تغلو رامکوٹ کا وزٹ کیا اور ایک خوبصورت ڈاکومنٹری بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس ڈاکومنٹری کو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے کئی ایوارڈ بھی ملے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں