پروفیسر محمد حسین /فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف عالمی منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی اعانت کے سدباب کا نگران عالمی ادارہ ہے جو 1989ء میں قائم ہوا اور پاکستان اس کا رکن ہے اس ادارے کے ذمے ہے کہ وہ حکومتوں کو ایسے اقدامات اور قوانین تجاویز کرے کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ممالک اپنے مالی معاملات میں شفافیت لا سکیں اور منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کا سدباب کر سکیں تجویز کیے گئے اقدامات پر ہونے والے عملدر آمد کی بنیاد پر ان ممالک کو تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہے بلیک لسٹ‘ گرے لسٹ اور وائٹ لسٹ۔بلیک لسٹ ممالک پر پابندیا ں عائد کر دی جاتی ہیں بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور بنک،بین الاقوامی کاروبا کے حقوق سے محروم کر دئیے جاتے ہیں اورملک معاشی طور پر تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں گرے لسٹ میں موجود ممالک کو کچھ حد تک مالی معاملات چلانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن بین الاقوامی لین دین پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے گرے لسٹ ممالک کو بین الاقوامی کاروباری ادارے،مالیاتی ادارے اور بنکس مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں وائٹ لسٹ ممالک کو ہر قسم کی سرگرمیاں،مالی معاملات اور لین دین کی آزادی ہوتی ہے اور بین الاقوامی طور پر ایسے ممالک کو اعتماد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے سرمایہ کار پورے اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کرتے ہیں پاکستان کا ایف اے ٹی ایف سے تعلق کچھ یوں رہا ہے کہ 2008ء میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا اور 2010ء میں پاکستان گرے لسٹ میں چلا گیا اس کے بعد 2012میں دوبارہ بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا اور 2014 میں پھر گرے لسٹ میں اور 2015ء میں وائٹ لسٹ میں ڈالا گیا 2018میں پاکستان وائٹ لسٹ سے نکال کر پچھلے تین سالوں کی کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا اور بلیک لسٹ کی تلوار تب سے پاکستان کے سر پر لٹک رہی ہے پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوششوں کی قیادت ہمارا ازلی دشمن بھارت کر رہا ہے 2018ء میں پی ٹی آئی کی نئی حکومت آنے کے بعد اب تک ایف اے ٹی ایف کے چار اجلاس ہو چکے ہیں جن میں پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالنے کا معاملہ ایجنڈے میں شامل ہے لیکن پاکستان چاروں بار بلیک لسٹ میں جانے سے بچ گیا اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے بتائے گئے اقدامات پر عملد ر آمد کے لیے مزید وقت ملتا گیا اب حکومت پاکستان گرے لسٹ میں نکال کر وائٹ لسٹ مٰں جانے کی کوششوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہے ایف اے ٹی ایف کے بنائے گئے ستائیس اقدامات میں سے اکیس اقدامات پر کلی یا جزوی عملدر آمد ہو چکا ہے اور بقایا چھ نکات ایسے ہیں جن پر بالکل بھی عملدر آمد نہیں ہو سکا اور اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ّآپس میں چپقلش کیوں چل رہی ہے بنیادی طور پر ان چھ نامکمل معاملات اور عمومی طور پر تمام معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اور ایک اچھا تاثر دینے کے لیے حکومت کی کوشش تھی کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر قوانین پاس کروائے جائیں اس لیے اپوزیشن سے بات کی گئی تو اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیم پاکستان کے لیے عالمی سطح پر شرمندگی اور مالی مسائل کا باعث اس معاملہ پر ووٹ دینے کے بدلے اپنی فرمائشوں کی ایک لسٹ لے کر آگئی جس کا ون پوائنٹ ایجنڈہ اپنی لیڈر شپ کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا خاتمہ تھاایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں جانے کے لیے پیش کردہ قوانین کو ووٹ دینے کے بدلے اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیم نے درج ذیل فرمائشیں پیش کر دیں نیب قوانین کا اطلاق 16نومبر 1999ء کے بعد ہوا اس سے پہلے والے تمام مقدمات ختم کر دئیے جائیں منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا اختیار نیب سے واپس لیا جائے پانچ سال سے پرانے کرپشن کے مقدمات کی تحقیقات نہ کرائی جائیں ایک ارب سے کم مالی بدعنوانی کو کرپشن کی فہرست سے نکالا جائے عدالتوں سے اپیلوں کا فیصلہ آنے تک عہدوں سے نا اہل نہ کیا جائے بنک نادہندگی پر نیب کا کیس بنانے کا اختیار ختم کیا جائے بیرون ملک اثاثوں کو نیب کے دائرہ کار سے نکالاجائے اور آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیق کا اختیار نیب سے واپس لیا جائے مختصر یہ کہ ایسا وقت جب ایک طرف ملکی وقار اور عزت داؤ پر لگی ہواور ملک کو بلیک لسٹ میں ڈالا جانے والا ہو اور اس سے بچنے کے لیے اقدامات کی حمایت کرنے کے وقت بھی جو سیاستدان اپنی ذاتی لوٹ کھسوٹ کو بچانے کے لیے کوشاں ہوں اور حکومت کو بلیک میل کرنے میں مصروف ہوں تو ان کی اس ملک سے وابستگی پر سوال نہ اٹھائے جائیں تو او ر کیا کیا جائے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مطلوبہ بل پاس کروا لیے ہیں اور قانون سازی مکمل کر لی گئی ہے اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے حکومت پاکستان کو مزید اقدامات کرنے کے لیے فروری 2021ء تک مہلت دے دی گئی ہے اور فروری 2021ء میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کے گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ یا بلیک لسٹ میں جانے کا فیصلہ کیا جائے گا یاد رہے کہ پاکستان اس وقت گرے لسٹ میں ہے۔
202