روزہ ارکان اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ یہ عبادت پہلی امتوں پر بھی فرض کی گئی تھی اس ضمن میں قرآن حکیم کی سورہ بقرہ آیت نمبر 183 میں ارشاد ربانی ہے۔ ”اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تا کہ تم پرہیز گار بنو“۔ درج بالا احکام خداوندی سے جہاں روزے کا فرض ہونا ثابت ہوتا ہے وہاں اس کی فرضیت کی حکمت بھی واضح ہوتی ہے جو کہ تقویٰ کا حصول ہے۔
فلسفہ صیام در اصل حصول تقوی، ضبط نفس اور خوشنودی خداوندی ہے۔ تقویٰ دل کی کیفیت کا نام ہے جو انسان کو نیکیوں کی طرف راغب کرتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے۔ انسان کو نیکیوں سے روکنے اور برائیوں کی طرف راغب کرنے والی چیز نفس ہے۔ نفس اگر ہدایات رحمن کے تابع رہے تو یہ امر معاشرتی ترقی اور امن کا ضامن ہے اور جب نفس مثل شتر بے مہار ہو جائے تو وہ انسان کو حیوانی سطح کی پستی تک دھکیل دیتا ہے۔
جب ایک انسان سچے دل سے ایک مہینے تک خود کو برائی سے روکے رکھتا ہے تو اس میں شیطانی خواہشات پر قابو پانے کی سکت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ شیطان کی ہر ترغیب کا تیغ ایمانی سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ جب انسان کھانے پینے کی وافر اشیاء اور گناہ کی طاقت و خواہش ہونے کے باوجود اس سے خود کوروکتا ہے تو اس کا یہ فعل اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اس نے اپنے غرور و امارت کے تمام بتوں کو پاش پاش کر کے اپنا سر خدائے واحد کے حضور خم کر لیا ہے اور اپنی تخلیق کے حقیقی راز کو پا لیا ہے۔ روزہ انسان کو خود پر ضبط کرنے کا درس دیتا ہے۔
دن بھر بھوک اور پیاس کی شدت کو محسوس کرنے سے جذبہ ہمدردی و ایثار کو فروغ ملتا ہے۔ غرباء، فقراء اور مساکین کی زندگی کے اذیت ناک پہلوؤں کی تلخی ہم پر واضح ہوتی ہے۔ ہمارے دل میں ان کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ہمیں ان کی بھوک اور پیاس کا احساس ہوتا ہے۔ فلسفہ صیام کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل چند سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں:
1۔کیا ہمارے دلوں میں اس ماہ مقدس میں تقوی، ضبط نفس، ہمدردی و ایثار کے حقیقی جذبات فروغ پاتے ہیں؟
2۔کیا ہماری عبادت خالصتاّ اللہ کی خوشنودی کے لیے ہوتی ہے؟ اور ریا سے پاک ہوتی ہے – 3.کیا غرباء اور مساکین کے لیے ہمارا رویہ حقیقتاً مثبت ہو جاتا ہے؟
اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو ہمیں ان کے جوابات اپنے دل سے بخوبی مل جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خصوصاً جہاں اس ماہ مقدس میں مساجد میں نماز تراویح و شبینہ کا اہتمام کیا جاتا ہے وہیں ہماری نوجوان نسل گلیوں، محلوں میں کھیلوں کے مقابلوں کا خاص اہتمام کرتی ہے مقابلے سحری تک جاری رہتے ہیں اس طرح ہماری نوجوان نسل شب بیداری کا خصوصی اہتمام کرتی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا پر رمضان ٹرانسمیشن کا انعقاد کیا جاتا ہے اور شوبز سے تعلق رکھنے والے اداکار، ماڈلز،سنگرز اور اینکرزہمارے مذہبی رہنما بن جاتے ہیں ہم ان کا وعظ اسی ذوق و شوق سے سنتے ہیں جتنے شوق سے ہم ان کے ڈرامے، کنسرٹس اور پروگرام دیکھتے ہیں۔ ہمیں پارٹ ٹائم مذہبی رہنماؤں کو دیکھنے اور سننے کی عادت ہوتی ہے اسی لیے ہم انھی کو شوق سے سنتے ہیں کیونکہ انھیں بھی دین سے دل چسپی اسی قدر ہوتی ہے جتنی کہ ہمیں دلچسپی ہوتی ہے شاید یہی وجہ سے ہماری اور ہمارے پسندیدہ واعظین میں ہونے والی مثبت تبدیلی دیرپا نہیں ہوتی، محض ایک ماہ تک کے لیے ہوتی ہے ماہ مقدس کے گزرنے کے بعد ہم اور وہ پہلے والی حالت میں چلے جاتے ہیں۔
ہمارا دن کا زیادہ تر حصہ سو کر گزرتا ہے اور باقی ماندہ افطاری کے اہتمام میں۔ ماہ مقدس ہمیں سادگی اختیار کرنے کا درس بھی دیتا ہے مگر ہمارے ہاں افطاری کا بے پناہ اور بے دریغ اہتمام کیا جاتا ہے جو کہ صرف اور صرف اپنی ذات کے لیے ہوتا ہے اس اہتمام میں غرباء و مساکین تک ایک لقمہ بھی پہنچنے کا شائبہ تک نہیں ہو تا۔
سچ تو یہ ہے کہ سارا دن بھوکا، پیاسا رہنے سے ہماری جان پر بنی ہوتی ہے اپنا ہوش تک نہیں ہوتا ایسے عالم میں ہمیں غرباء و مساکین کا ہوش کہاں رہے گا؟ ہم تو اس وقت بھوکے شیر کی مانند ہوتے ہیں مسجد سے بچنے والے سائرن کے انتظار میں۔ ہماری افطار پارٹیوں میں صرف صاحب ثروت لوگ ہی مدعو ہوتے ہیں غریبوں کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ہم روزہ رکھ کر بار بار اس کا تذکرہ کرتے ہیں غصے سے بپھرے ہوتے ہیں گویا کہ ہماری چڑھی ہوئی تیوری اور عدم برداشت کا سبب روزہ ہوتا ہے۔ ہم روزہ رکھ جیسے کسی پر کوئی احسان کر رہے ہوتے ہیں۔
روزہ خدائے بزرگ و برتر کی محبوب عبادت ہے ارشاد ربانی ہے کہ ”روزہ تو خاص میرے لیے ہے اس لیے اس کا ثواب میں اپنی مرضی سے دوں گا“۔
اگر ہم روزہ اس کے فلسفے کے عین مطابق رکھیں تو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حق دار ٹھہر سکتے ہیں۔ نبی کریم صل اللہ علیہ والہ سلم کا ارشاد ہے کہ”ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے گئے روزوں سے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں“۔ ایمان اور احتساب کے بغیر رکھے گئے روزوں کے بارے میں فرمان مصطفی ہے
بہت سے روزے دار ایسے ہیں کہ جن کو اپنے روزوں سے بھوک اور پیاس کی اذیت کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا“۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم خود کو بالعموم اور اپنی عبادات کو بالخصوص ریا کاری، تصنع اور ملمع کاری سے پاک کریں۔ ہمارے اعمال اور عبادات خالصتا اللہ کے لیے ہونی چاہئیں۔
ہمیں نہ صرف ماہ صیام میں تقوی و ضبط نفس کو اپنے دل میں فروغ دینا چاہیے بلکہ اس کو تا عمر اپنا شعار بنانا چاہیے۔ تاکہ ہمارا روزہ حقیقی روزہ ہو محض بھوک پیاس نہ ہو۔ ہمارہ افطار بے جا اسراف نہ ہو۔ ہمارے واعظین پارٹ ٹائم نہ ہوں۔ ہمارا کردار ظاہر و باطن میں یکساں ہو۔
ہماری شب بیداری خالصتا اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو نہ کہ تماشے اور ذاتی شہرت کے لیے۔ ہمارے دلوں میں ناداروں کے لیے ہمدردی کے احساسات ہوں۔ ہمارے مال میں ان کے لیے ایک حصہ ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان المبارک کو صحیح معنوں میں اس کے حقیقی فلسفے کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔