عبدالستارنیازی/قارئین کرام! سیاست، صحافت، عوام کا چولی دامن کا ساتھ صرف کہنے کی حد تک تو ہے مگر اس کا عملی ثبوت کہیں آج تک نظر نہیں آیا، الیکشن آتے ہیں تو آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعرے یہی عوام مارتے ہیں اور پھر پانچ سال جوتے بھی یہی عوام کھاتے ہیں، میں اس عوام کو ہرگز قوم نہیں کہتا اور نہ لکھتا ہوں کیونکہ یہ ہجوم ہے جس طرف ہانکنا چاہو ہانک دو، تو یہ لکھنے میں راقم حق بجانب ہے کہ یہ بیوقوفوں کا ٹولہ ہے، اگر بیوقوف نہ ہوتے تو اتنی مار کھاتے؟ اپنے حقوق چھین کر نہ لے چکے ہوتے؟ ان کے ووٹ کی طاقت سے حکمران نہ بنتے؟ لیکن انہیں تو صرف پتلی تماشے کی حد تک رکھا گیا ہے، جناح کا پاکستان کہاں ہے؟ علامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا وہ تو ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی نظر نہ آیا، ایک ذوالفقار علی بھٹو تھا جس نے حقیقی معنوں میں عوام کی بات کی تھی مگر اس نے بھی پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا تھا، گوجرخان کی بات کی جائے تو سیاست اور اداروں کے مابین چپقلش گزشتہ اڑھائی پونے تین سال سے مسلسل جاری ہے، ادارے منتخب نمائندوں کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بیچاروں کو اسمبلی سے واک آؤٹ کرنا پڑا اور پھر سپیکر پنجاب اسمبلی کی منت سماجت کر کے وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کر کے انہیں گلے شکوے کئے، اس واک آؤٹ کا دو دن پہلے عملی طور پر ردعمل دیکھا کہ خدمت مرکز میں ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کا باقاعدہ آغاز ہونے کے ڈیڑھ ہفتے بعد سی پی او راولپنڈی نے دورہ کیا اور ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کو عزت بخشی گئی جس کا اس سے پہلے عملی طور پر مظاہرہ میں نے نہیں دیکھا، اس دورے کو تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے لائسنس اجراء کا باقاعدہ افتتاح کا نام دیا گیا جو سراسر غلط اور راولپنڈی پولیس کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق جھوٹ ہے، ہر جگہ فوٹو سیشن کی بجائے اگر دفتر میں بیٹھ کر عملی کام کئے جائیں تو یہ ملک کافی حد تک مسائل سے نجات حاصل کر سکتاہے مگر گلی نالی سڑک کی سیاست کرنے والے اس سے اوپر کی سوچ نہیں رکھتے اور یہ عوام ان سے یہی توقعات وابستہ کئے ہوئے انہیں ووٹ دیتی ہے، این اے 75 سمیت ضمنی الیکشنز میں ہر جگہ دھاندلی کی گئی اور کرائی گئی مگر انتخابی اصلاحات کی جانب نہ تو سابقہ ادوار میں کوئی توجہ دی گئی اور نہ ہی موجودہ حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے کیونکہ شفاف الیکشن ہو گئے تو پھر عوامی حکومت آ جائے گی اور سلیکٹرز کی یقینا چھٹی ہو جائے گی تو ایسا ہونے سے رہا، گوجرخان کے بے پناہ مسائل اور ان کے حل کیلئے نہ تو گزشتہ منتخب نمائندے سنجیدہ تھے اور نہ ہی موجودہ منتخب نمائندے سنجیدہ ہیں جس وجہ سے شہری، ووٹر، سپورٹر صبح شام کوستے پھرتے ہیں مگر اب پچھتانا کیا اب تو صرف صبر ہی کیا جاسکتاہے، شہر میں بڑا مسئلہ پارکنگ اور تجاوزات کا ہے جس جانب کوئی ادارہ اور حکومتی نمائندے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، قبضہ مافیا نے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور بیول تک قبضے کی بازگشت سنائی دیتی ہے جس میں شاملات کی جگہ پر نام نہاد سفید پوشوں نے قبضہ کررکھا ہے اور بااثر مافیا اور حکومتی پشت پناہی کی وجہ سے تاحال ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ پیش نہ کی جاسکی اور اس بابت تلخ حقائق لکھنے پر ایک صحافی کو لیگل نوٹس بھی بھجوایا گیا تھا جو شاید اب سب کو بھول گیا ہے، گوجرخان شہر میں اندرون شہر قبضہ مافیا اورتجاوزات مافیا نے پوری طرح پنجے گاڑ رکھے ہیں اور یہ مافیا ہر اس پارٹی کے شانہ بشانہ ہوتا ہے جو اقتدار میں ہوتی ہے اسی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی، کھوکھے لگائے گئے، پلازے بنائے گئے مگر کسی ادارے کے کان پر جوں تک نہ رینگی، گزشتہ سال ان دنوں شاپنگ سنٹر کی دکانات کی نیلامی کے سلسلے میں ہنگامہ برپا تھا جو 75/75ہزار روپے فی دوکان دے کر معاملات برابر کئے گئے کس نے کتنا مال بنایا یہ الگ قصہ ہے، گزشتہ روز این ایچ اے حکام کی گوجرخان آمد پر کھوکھا بازار والوں کی دوڑیں لگی رہیں، این ایچ اے کے مطابق ان کی جگہ پر لگائے جانے والے کھوکھا جات کے بقایا جات کروڑوں روپے میں ہوچکے ہیں جو ادا کئے جائیں بصورت دیگر آپریشن کر کے کھوکھے مسمار کئے جائیں گے، لیکن یہی این ایچ اے انڈر پاس کے اوپر خلاف معاہدہ تجاوزات کی بابت خاموش ہے اور اس حوالے سے ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر ماضی میں ایک بیان بھی دے چکے ہیں جس میں ان کی بے بسی واضح تھی، یہی این ایچ اے سڑک کے اطراف میں بنائے گئے پلازوں اور دکانات کی جانب خاموش ہے جو مرلوں کے حساب سے این ایچ اے کی جگہ پر تعمیرات کئے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ حکومتی اور بااثر شخصیات کے زیرسایہ ہوتے ہیں، کھوکھا جات کی بابت کیس راولپنڈی عدالت میں زیرسماعت ہے جس میں این ایچ اے کے ٹھیکیدار اور بلدیہ گوجرخان میں کرایہ کی بابت تنازعہ چل رہاہے اور کھوکھا داران ماہانہ 2000/- روپے عدالت کی جانب سے مقرر کردہ وکیل کو مسلسل دے رہے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ عدالت میں کیس دائر ہونے کے باوجود این ایچ اے بقایا جات وصولی اور کھوکھے مسمار کرنے کا قدم کس طرح اٹھا سکتا ہے؟ اس حوالے سے کھوکھا یونین گوجرخان کے صدر مرزا تیمور وارثی نے بتایا کہ این ایچ اے کے مطابق 400 سے زائد کھوکھا جات گوجرخان میں ہیں جبکہ ہماری یونین میں 312 کے قریب کھوکھا جات رجسٹرڈ ہیں جوالیکشن میں ووٹ کاحق بھی استعمال کرتے ہیں،این ایچ اے حکام سے بات ہوئی ہے اور ان سے باضابطہ میٹنگ ان کے دفتر میں مرکزی انجمن تاجران کے صدر کے ہمراہ ہو گی جس میں معاملات کو دیکھا جائے گا۔ قارئین کرام! این ایچ اے پاکستان کا وہ کرپٹ ترین ادارہ ہے جس کی بازپرس کسی سطح پر نہیں ہوتی، ٹول پلازوں کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے کی کرپشن اور خرد برد اسی ادارے کا طرہ امتیاز ہے اور آج تک کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ سڑکوں کی حالت اتنی خراب کیوں ہے؟ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے انہوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ گوجرخان شہر میں این ایچ اے اور ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کی مشترکہ غفلت نے کئی جانیں لے لی ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، اختتام اسی بات پہ کروں گا کہ روئیں تو کس کو روئیں!! ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا۔ والسلام۔
278