چوری ڈکیتی و دیگر جرائم کو کنٹرول کرنا کسی بھی ملک میں قائم حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے پولیس کا نظام کسی نہ کسی نام سے کام کر رہا ہوتا ہے ترقی یافتہ ممالک نے عوام کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی غرض سے بنائی گئی پولیس فورس میں وقت کے حساب سے تبدیلیاں لائیں جرائم گلی محلوں سے نکل کر اب انٹرنیٹ کے سبب ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے سے ملک تک پہنچ چکے ہیں کسی کو اس بات کا ادراک نہیں ہو پاتا کہ گلی میں گم سم دکھائی دینے والا لڑکا کسی دوسرے ملک کے شہری کے بینک اکاؤنٹ سے لاکھوں ڈالر چرا کر بیٹھا ہوا ہے پاکستان کی نسبت دیگر ممالک نے عوام میں احساس تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے پولیس فورس کے نظام قوانین میں تبدیلیاں لائیں جبکہ پاکستان میں جدید تقاضوں و وقت کے مطابق تبدیلیاں نہیں لائیں گی اور نہ ہی پولیس فورس کی جدید انداز میں تربیت کی گئی جس کے سبب ملک میں کرائم کی شرح بڑھتی رہی پاکستان میں چوری ڈکیتی راہزنی و دیگر جرائم کے واقعات کے درج کیسز کا مطالعہ کریں تو ان میں ایک بات جو مشترک دکھائی دیتی ہے وہ ہے 80 فی صد جرائم میں موٹر سائیکل کا استعمال ہونا ہے جرائم پیشہ عناصر موٹر بائیک پر باآسانی واردات کے بعد فرار ہو جاتے ہیں موٹر وے پولیس‘ وارڈن پولیس اور موٹر بائیک کو ملکی و صوبائی قوانین کے رجسٹرڈ کرنے اور اسکا نمبر جاری کرنے کے زمہ دار ادارے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے افسران و عملے کی مایوس کن کارکردگی کے سبب آپ کو قومی شاہراہوں پر درجنوں نہیں بلکے ہزاروں موٹر بائیکس دکھائی دیں گے جن کی نمبر پلیٹ پر نمبر کے بجائے جانو‘ پرنس‘ مانی‘ ٹائیگر‘سردار جیسے الفاظ لکھے نظر آتے ہیں بلکہ بعض من چلے تو لکھ دیتے ہیں ”نمبر دیاں اوڈیکھاں“اور یہ نمبر کی اوڈیک سالوں چلتی رہتی ہے،ملک کے بڑے شہروں کے اندر اقساط پر موٹر سائیکل دینے والے دوکانداروں نے ریاستی اداروں کی عدم توجہ و فیلڈ افسران کی ملی بھگت کے سبب اب تو ایک مربوط نیٹ ورک بنا کر کمپنیوں کا روپ دھار رکھا ہے اقساط پر موٹر سائیکل کم عمر نوجوانوں کو دے کر انھیں ایک لیٹر جاری کر دیا جاتا ہے کہ یہ موٹر بائیک قسطوں پر ہے اقساط پوری ہونے پر نمبر لگوایا جائے گا اس لیٹر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں مگر اس کے باوجود موٹر وے پولیس وارڈن پولیس والے انھیں رعایت دیتے دکھائی دیتے ہیں ملک میں موٹر بائیک کا تواتر سے سٹریٹ کرائم سے لیکر ٹارگٹ کلنگ چوری ڈکیتی و دہشت گردی و دیگر سنگین وارداتوں میں استعمال ہونا ریاستی اداروں کے لئے چیلنج بنتا جا رہا ہے موٹر بائیک کو جہاں غریب کی سواری قرار دیا جاتا ہے وہاں موجودہ مہنگائی کے دور میں موٹر بائیک کوسستی ترین سواری قرار دیا دیا جاسکتا ہے موٹرسائیکل ایک طرف غریب کی سواری تو دوسری طرف جرائم پسند عناصر کے لئے واردات کے بعد برق رفتاری سے فرار ہونے کا بہترین ذریعہ بھی ہے ضلع راولپنڈی میں روزانہ تھانوں میں ریکارڈ ہونے والے جرائم و سوشل میڈیا پر چوری ڈکیتی کے واقعات میں ایک چیز جو مشترک ہے دکھائی دیتی ہے وہ ہے موٹر بائیک کا استعمال ہے سٹی پولیس آفیسر احسن یونس نے بغیر رجسٹرڈ موٹر بائیکس کے خلاف ضلعی سطح پر مہم کاآغاز کر کے صوبے بھر میں اس طرز کی مہم کا صوبائی سطح پر کر کے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کیونکہ بغیر نمبر پلیٹیں کے سڑکوں پر گھومنے والے موٹر سائیکل ہی کرائم کی شرح میں اضافے کا سبب بنے ہوئے ہیں سی پی او راولپنڈی پولیس نے جس اہم مہم کاآغاز کیا ہے اس کے نتائج آمدہ دنوں میں ہمیں دیکھنے کو ملیں گے مجھے قوی یقین ہے کہ اس مہم کے سبب جرائم کی شرح کم ہو جائے گی راولپنڈی پولیس چیف کے اس دبنگ اقدام پر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو بھی ساتھ دیتے ہوئے نمبر پلیٹیں و ٹوکن فیس جمع کروائے بغیر سڑکوں پر گھومنے والے موٹر بائیک کے خلاف مہم کا آغاز کریں اس اہم و دور رس مہم کے سبب تھانوں میں آرام کرنے والے پولیس ملازمین و علاقوں میں سیاسی سماجی شخصیات سے تعلقات استوار کرنے والے پولیس افسران کو مشکلات کا سامناہے کیونکہ وہ موٹر سائیکلوں کو انکی ٹیلی فون کال پر چھوڑ بھی نہیں سکتے اس مہم کو ناکام بنانے کے لیے سی پی او راولپنڈی کی جاری ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے فوری انھیں 550 کے تحت بند کر کے چالان کر دیتے ہیں جس سے گھر میں بائیک کے اصل کاغذات ہونے کے باوجود موٹر سائیکل مالکان کو ذہنی پریشانی واضافی مالی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں پولیس کے اس رویے کے سبب عوام اس مہم سے بے ذاری وغصے کا اظہار کرتی ہے راولپنڈی پولیس کے سربراہ احسن یونس خراج تحسین کے مستحق ہیں اس مشکل و اہم کام کو جاری رہنا چاہیے اقساط پر موٹر بائیکس دینے والے دوکانداروں کو صوبائی و محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے قوانین کا پابند بنانے کی حکمت عملی سامنے لائی جائے تاکہ وہ اقساط پر بھی موٹر بائیکس کو نمبر پلیٹ کے بغیر نہ رکھ سکیں دو دو سال سٹی پولیس آفیسر اس مہم کی براہ راست مانیٹرنگ کریں تاکہ کاغذاتِ کے باوجود موٹر بائیک مالکان کو تنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی ہو سکے ویل ڈن سی پی او راولپنڈی پولیس احسن یونس ویل ڈن۔
145