راولپنڈی کے موجودہ حلقہ این اے NA53سابق این اے 59“اورپی پی دس ہر دور میں ہی انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے اسکی چوہدری نثار علی خان کا یہ حلقہ انتخاب رہا ہے لیکن گزشتہ الیکشن میں ن لیگ سے راہیں جدا ہونے کے بعد چوہدری نثار کی جیپ کے تین ٹائر پنکچر ہوئے اور وہ صوبائی کی سیٹ جیت کربمشکل اپنی سیاسی ساکھ بچا پائے وہ گزشتہ دوران حکومت اس بدترین شکست کیوجہ سے تقریبا کومے کی حالت میں رہے تاہم سیاسی کشمکش اور اقتدار کی رشہ کشی کو دیکھ کر اب ان کے سیاسی مفلوج جسم میں حرکت پیدا ہوچکی ہے
اور انہوں نے ایکبار پھر آزار حثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے ان کے قریبی سیاسی حریف غلام سرور خان ہیں جواقتدار کے مزے لوٹ کر مشکل وقت میں تحریک انصاف کی ڈگمگاتی سیاسی کشتی سے چھلانگ لگا چکے ہیں تاحال خاموش دکھائی دے رہے ہیں وہ اس بار جہانگیر ترین کی نوآموز سیاسی جماعت کا حصہ ہونگے یاکسی اور سیاسی جماعت کا تاحال انہوں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے انکے ن لیگ میں جانے کی باتوں کو ن لیگ کے کچھ سینئررہنماء بھی دبے لفظوں مان رہے ہیں کہ انکو ن لیگ میں داخلہ مل سکتا ہے
اپنے سابقہ ٹریک کو مدنظر رکھتے ہوئے غلام سرورخان نے وزارت کے مزے لوٹے اور عین مشکل وقت میں عمران خان کو چھوڑ دیا
حسب رواہات انہوں نے مشکل لیگ ق اور پیپلز پارٹی کو چھوڑا تھا
اگر بات کریں تحریک انصاف کی تو اس وقت کرنل اجمل صابر راجہ اور راجہ وحید قاسم ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پارٹی کے لیے اس بدترین صورتحال میں بھی پیچھے نہ ہٹے اور انہوں نے قید بند کی صعوبتیں بھی جیل لی اب اگر کوئی سیاسی یا قانونی چال چل کر اس جماعت کو الیکشن سے باہر نہ کیا گیا تو کرنل ر اجمل صابر راجہ اورراجہ وحید قاسم کی صورت میں ایک تگڑا پینل میدان ہوگا جیسے نہ صرف علاقائی بلکہ برادری سسٹم کی حمائیت بھی حاصل ہوگی
گزشتہ الیکشن میں غلام سرورخان کی چوہدری نثار کے خلاف کامیابی میں بڑا ہاتھ کرنل اجمل صابر راجہ کا ہی تھا اگر وہ کھل کر پارٹی امیدوار کو سپورٹ نہ کرتے تو یہ سیٹ چوہدری نثار کو مل جانی تھی کرنل اجمل کی حلقہ جاتی سیاست اس وقت تمام امیدواروں پر بھاری ہے اسی حلقہ سے تحریک لبیک پاکستان سے چوہدری تیمور خالد قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں اور پارٹی کے علاوہ مضبوط برادری ان کا ساتھ دینے کو تیار ہیں اور گزشتہ الیکشن میں کرین نے پندرہ ہزار سے زائد ووٹ لے لیے تھے
اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے دیرینہ رہنماء چوہدری کامران علی خان نے بھی الیکشن میں حصہ لیا تھا تاہم اس وقت کامران اسلم ڈرائنگ روم کی سیاست تک محدود ہیں انکا حلقہ میں ورک نہ ہونے کے مترادف ہے تاہم چوہدری نثار راجہ پرویز اشرف گٹھ جوڑ انکے لیے کسی حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے تاہم کوئی معجزہ ہی انہیں کامیابی دلواسکتا ہے خالد مرزا جو جماعت اسلامی کے امیدوار تھے انہوں نے اس بار ایک قدم پیچھے لیکر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تاہم اب جماعت کے ٹکٹ پر محمد عارف گجر پہلی بار سامنے آئے ہیں جو اپنا حصہ لینگے
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹرمصطفےٰ نواز کھوکھر بھی آزادحیثیت سے امیدوار ہیں وہ بھی حلقہ سے برادری ازم سمیت اپنے اباواجداد کا سیاسی اثر رسوخ استعمال کرکے چند ہزار ووٹ ضرورحاصل کرسکتے ہیں تاہم اگر وہ کامیابی چاہتے ہیں تو انہیں بھرپور جہدو جہد کرنا ہوگی جو وہ کرتے نظر نہیں آتے
اسی حلقہ سے ایک اور آزاد امیدوار بھی میدان میں آنے کو تیار ہیں انکا تعلق چونترہ کے معروف گاؤں پنڈ ملہو سے چوہدری ندیم اعجاز نےبھی آذاد حثیت سے قومی اور صوبائی دونوں نشستوں پر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ہے تاہم الیکشن میں آنے سے قبل انکے دامن پر زمینوں پر قبضہ سمیت لاتعداد FIRکا داغ بھی موجود ہے انہیں شائید الیکشن جیتنے اور عوامی خدمت کا اتنا شوق نہیں جتنا وہ اپنے اوپر لگے قبضہ مافیاء کے داغ کو صاف کرنے اور کامیابی کے شور میں اس کو دفن کرنے کے لیے کوشآن ہیں ہمارے زرائع کا دعوی ہے کہ وہ ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے کوشاں
ہیں
اب بات کریں ن لیگ امیدوار کہ تو قمر اسلام راجہ اس وقت سوشل میڈیا پرقومی اور صوبائی کی دونوں سیٹوں سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم انکی زیادہ دلچسپی صوبائی سیٹ پر اس حلقہ میں ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے چوہدری ندیم اعجاز سمیت پیر آف سروبہ شریف بھی کوشاں ہیں اور اندورن خانہ ن لیگ کی سینئر قیادت سے ملاقات بھی کرچکے ہیں تاہم ابھی تک انہیں گرین سگنل نہیں مل سکا ہے
دوسری طرف مریم نواز اس حلقہ میں خصوصی دلچسپی لیتی ہیں اور انہوں نے چوہدری نثار کو سیاست سے مکمل بلیک اوٹ کرنے کے لیے ہر حربہ اس الیکشن میں استعمال کرنا ہے اس کے لیے غلام سرورخان سمیت کسی کو بھی مدمقابل لایا جاسکتا ہے کیونکہ قمراسلام راجہ کی قومی سیٹ پر عدم دلچسپی ہی ن لیگ کو مجبور کررہی ہے کہ وہ کسی قد کاٹھ کے امیدوار کو چوہدری نثار کے سامنے لاکھڑا کرے اس کے وہ اپنے امیدورا کے بجائے مصطفے نواز کھوکھر غلام سرورخان ندیم اعکاز سمیت کسی کو بھی سپورٹ کرسکتے ہیں
اگر الیکشن ہوتے ہیں تو اس حلقہ میں چوہدری نثار ن لیگ اور کرنل اجمل صابر راجہ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے اور آزار امیدوار چند ہزار ووٹوں سے کسی بھی سیاسی جماعت کے امیدوار کا تختہ الٹ سکتے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان میں عوام کو ریلف کون دیگا جسکا جواب گزشتہ آٹھ دہائیوں سے پاکستانی عوام کو نہ مل سکا حلقہ کے عوام کو کیا ملے گا