تحریک انصاف کی حکومت دن بدن عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہی ہے اور اس کی تمام تر پالیسیاں یکے بعد دیگرے ناکام ہوتی جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران در بحران میں گرتی جارہی ہے ایسے مشکل وقت میں حکومتی صفوں میں بھی اتحاد نظر نہیں آرہا بہت سے وزراء ایک دوسرے سے کھینچاتانی میں لگے ہوئے ہیں اور ایسی ہی صورتحال اب وزراء اور لیڈروں سے ہوتی ہوئی نیچے حلقوں تک پہنچ چکی ہے حلقہ این اے 59 جہاں سے منتخب ایم این اے غلام سرور خان جو اس وقت وفاقی وزیر کی کرسی پر براجمان ہے حلقہ میں کئی ترقیاتی کام کرواتے نظر آرہے ہیں خاص طور پر تعلیم اور صحت کے حوالے سے انکے اقدام لائق تحسین ہے جن میں پانچ ڈگری کالجز کا قیام اور چک بیلی خان روڈ جوڑیاں کے مقام پر سو بستر پر مشتمل ہسپتال کا قیام ہے دیگر ترقیاتی کاموں میں واٹر سپلائی سکیم اور گیس کی فراہمی بھی قابل ذکر ہے دوسری جانب انکی جماعت کے ہی رہنما جو اس وقت چیئرمین ہے راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کے جنھوں نے پارٹی کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں انھوں نے 2013 کے انتخابات میں حصہ لیا اور ایک قد آور شخصیت چوہدری نثار علی خان کے مدمقابل الیکشن لڑا انکا یہ پہلا الیکشن تھا اسکے باوجود انھوں نے 50 ہزار سے زائد ووٹ لے کر سبکو حیران کر دیا انھوں نے انتخابات کے بعد عوام سے رابطہ جاری رکھا اور مشکل وقت میں ڈٹے رہے مگر بدقسمتی سے انکو 2018 کے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا جس کے بعد پارٹی قیادت نے انکو آزاد الیکشن لڑنے سے پیچھے ہٹنے کو کہا جس کے بعد وہ آزاد الیکشن لڑنے سے بھی پیچھے ہٹ گئے اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت بن گئی جس کے بعد انکو مسلسل نظر انداز کیے رکھا آخر ان پر بھی قسمت کی دیوی مہربان ہوئی انکو ایک ادارے کا چیئرمین بنا دیا گیا لیکن 2018 کے عام انتخابات سے لے کر اب تک دونوں رہنماؤں کے درمیان جاری تلخیاں کم نہیں ہوسکیں یہ دونوں ایک دوسرے سے کوسوں دور رہتے ہیں ایک حلقے‘ایک جماعت کے لیے کام کرنے کے باوجود انکی آپس میں کبھی نہیں بن پائی یہی غلط فہمیاں اب بڑھتے بڑھتے اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ چند ہفتے قبل کرنل(ر) اجمل صابر راجہ نے وفاقی وزیر غلام سرور خان پر اپنی تیر کے نشتر چلا دیے اور ان پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے این اے 59 میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کروائے الٹا اس حلقہ کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے انکو معلوم کہ وہ اگلا الیکشن یہاں سے نہیں لڑیں گے اس لیے انھوں نے اب اس حال پر حلقہ کو پہنچا دیا ہے کہ جو بھی الیکشن لڑے گا اسکو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مفاد کی خاطر پارٹیاں بدلنے والے کبھی بھی وفادار نہیں ہوسکتے جن کے اس بیان نے تحریک انصاف کی صفوں میں ہلچل مچا دی اور اسی وجہ سے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے کوارڈینیٹر برگیڈیئر ریٹائرڈ طارق زمان‘ معاون خصوصی ملک نعیم، چوہدری افضل پڑیال سمیت دیگر رہنماؤں نے ہنگامی پریس کانفرنس کی اور اس میں انہوں نے حلقہ میں جاری ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کون کون سے پروجیکٹ چل رہے ہیں اور ساتھ ساتھ انھوں نے کرنل(ر) اجمل صابر راجہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور انکا کہنا تھا کہ این اے 59 میں کام کا نہ ہونے کا کہنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جنکی اپنی سیاسی ساکھ نہیں وہ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں یعنی اب دونوں جانب سے بیان بازیاں جاری ہے انکی حالیہ گشیدگی سے پارٹی کو خاطر خواہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے کیونکہ کارکنوں کو متحد رکھنے کے لیے دونوں رہنماوں کا متحد ہونا ضروری ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کارکنوں کے بجائے دونوں رہنماء ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں اگر صورتحال ایسی ہی رہی اسکا کا کوئی سدباب نہ نکالا گیا تو تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے کیونکہ حالیہ حکومتی پالیسیوں کے سبب اور بڑھتی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے اس جماعت کا ووٹر پہلے ہی بدظن ہوچکا ہے اگر انکو اعتماد میں لینے کے بجائے آپس کی چپقلش ختم نہ کی گئی اور پارٹی کی اعلی قیادت نے اس طرف توجہ نہ دی تو ووٹر مذید بدظن ہوکر کسی اور جماعت میں جانے کا فیصلہ کرلے گا جسکا فائدہ دوسری جماعت یعنی مسلم لیگ ن کو ہوگا جو پہلے ہی مختلف یونین کونسل میں سے تحریک انصاف کے لوگوں کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا رہی ہے لیکن تحریک انصاف اس حوالے سے تاحال خاموش دکھائی دے رہی ہے اب دیکھنا ہوگا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان جاری یہ سرد جنگ ختم ہوتی ہے یا پھر وقت کے ساتھ مذید آگے بڑھے گی لیکن اس سرد مہری سے کسی کو نقصان ہو یا نہ ہو پارٹی کو ضرور نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے
202