107

غزل


پرندے اپنی زبان میں بولتے ہیں بولی پیار کی
جو انسان کی سمجھ میں نہیں آتی بات ہے یہ عجیب سی
انسان تو صرف نفرت پھیلاتا ہے اس جہاں میں
جتنی بھی مرضی ہو کس کے ساتھ رشتہ داری قریب کی
پرندے صبح کو روزی کو تلاش میں نکل جاتے ہیں
روزی ان کو بھی مل جاتی ہے جتنی ہو ان کے نصیب کی
کچھ سو جاتے ہیں درخت کی ٹہنیوں پہ کچھ گھونسلوں میں
پھر بھی سکون ہے انکی زندگی میں بے سکون ہے زندگی غریب کی
کچھ انسان سوتے ہیں مخمل کے بستر پراے سی کی ٹھنڈی ہوا میں
اظہر ٹوٹی ہوئی چار پائی ہے پھٹا ہوا بستر بات ہے اپنے اپنے نصیب کی
(اظہر جاوید‘گوہڑہ شریف)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں