پرندے اپنی زبان میں بولتے ہیں بولی پیار کی
جو انسان کی سمجھ میں نہیں آتی بات ہے یہ عجیب سی
انسان تو صرف نفرت پھیلاتا ہے اس جہاں میں
جتنی بھی مرضی ہو کس کے ساتھ رشتہ داری قریب کی
پرندے صبح کو روزی کو تلاش میں نکل جاتے ہیں
روزی ان کو بھی مل جاتی ہے جتنی ہو ان کے نصیب کی
کچھ سو جاتے ہیں درخت کی ٹہنیوں پہ کچھ گھونسلوں میں
پھر بھی سکون ہے انکی زندگی میں بے سکون ہے زندگی غریب کی
کچھ انسان سوتے ہیں مخمل کے بستر پراے سی کی ٹھنڈی ہوا میں
اظہر ٹوٹی ہوئی چار پائی ہے پھٹا ہوا بستر بات ہے اپنے اپنے نصیب کی
(اظہر جاوید‘گوہڑہ شریف)
