شیکسپیئر کا کہنا ایک ضرب المثال کی حیثیت رکھتا ہے کہ زندگی ایک اسٹیج ہے جس پر ہم سب اداکار ہیں جو اپنے اپنے وقت میں اپنا اپنا کھیل پیش کر کے رخصت ہوجاتے ہیں یہی اداکار زندگی کے آغاز سے انجام تک ایک جوا کھیلتا ہے جس میں خطرات اور حادثات کی بازی پہلی سانس کے ساتھ لگتی ہے اورآخری سانس تک جاری رہتی ہے تخلیق کے نقائص ہوں یا بیماریاں وہ زندگی کے ہر نومولود کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں لیکن زندگی مقابلہ کرتی ہے اور یہ کھیل انسانی تدبیر اور نوشتہ تقدیر کے ساتھ زندگی کے تمام اہم اور غیر اہم فیصلوں میں جاری رہتا ہے خوشی غم نفع نقصان دوستی دشمنی محبت ونفرت سب ہار جیت کے روپ ہیں جن سے ہر انسان ایک جواری بن کر سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔اس وقت ملک جس خوفناک داخلی صورتحال سے دوچار ہے اس کے تدارک کے لیے انقلابی سوچ اور راہ عمل کی اشدضرورت ہے سیاست دانوں کی مفاد پرستی اور نشتر زنی سے زخم اور بگڑتے جارہے ہیں لہو مسلسل رس رہا ہے۔مہنگائی کے علاوہ بے روزگاری کا عفریت سب کچھ نگلنے کوہے ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیں۔غریب آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ملک بھر کی طرح خطہ پوٹھوار بھی اس زمینی حقائق سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔یوں تو سخاوت کے حوالے سے پوٹھوہار کی سر زمین پورے ملک میں سب سے زیادہ زرخیر ہے خصوصاً گوجر خان بیول اور گرد نواح کے علاقوں کے دیارغیر رہنے والے افراد کی ایک غالب اکثریت یہاں فلاحی کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔غریب گھرانوں کو ماہانہ راشن‘ماہانہ خرچ‘نجی ہسپتالوں میں علاج ودوائیوں کی مفت سہولیات‘غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادیوں میں مالی معاونت کے علاوہ بے گھر افراد کو چھت کی فراہمی تک کی جاتی ہے غربیوں کی مدد کا احساس یہاں ملک کے دیگر حصوں سے بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔بیول میں ایسے بے شمار افراد موجود ہیں جو اپنے خدا کے عطاکردہ مال وزر سے دوسروں کی مدد کو فرض عین کے طور دیکھتے ہیں۔جن میں طارق پرویز‘لطیف عالم‘زر فاضل ہسپتال بنا کر علاقہ کو علاج معالجے کی فری سہولیات فراہم کرنے والے چوہدری آزاد‘ان کے بھائی چوہدری سیاب‘سابق ایم پی چوہدری افتخار وارثی کے بھائی چوہدری ابرار‘حاجی اسلم‘چوہدری صفدر اور بہت سے دیگر لوگ بھی۔لیکن اہم بات مسلسل بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہے جو بہت سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس پر پوٹھوہار دھرتی کے صاحب حیثیت افراد کو سوچنا ہوگا۔علاقے میں جس طرف نکل جائیں ہمیں بڑی بڑی کوٹھیاں اور محلات نظر آتے ہیں جن پر اکثر تالے پڑے دکھائی دیتے ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کوٹھیوں کے مالکان کی اکثریت دیار غیر میں رہائش پذیر ہے۔جو سالوں بعد یہاں آتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد واپس کہا یہ بھی جاتا ہے کہ ایک شخص کئی کئی عمارتیں بنا کر خالی چھوڑ جاتا ہے جو سرمائے کا ضیاع ہی کہا جاسکتا ہے۔ویسے تو جس نے پیسہ کمایا اس کا اسے اپنی مرضی سے استعمال کرنا پورا حق ہے اور کسی کو بھی اس پر تنقید کا حق نہیں ہے اگر بے جا خرچ کرنے کے بجائے اسے اپنی اور عوام کی بہتری کے خرچ کیا جائے تو دنیا اور آخرت دونوں میں بھلا ہوگا۔ہمارے باہر کاروبار کرنیوالے لوگ اپنی دھرتی کا قرض چکانے کے لیے علاقے
میں سمال انڈسٹری کو فروغ دیں تو علاقہ سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔گوجرانوالہ‘گجرات کی طرح مصالحہ جات‘پلاسکٹ کی جوتیاں‘الیکڑک سامان‘پلاسکٹ کے برتن‘کرسیاں ٹیبل اور اس طرح کے دیگر اشیاء بنانے کی چھوٹی چھوٹی فیکڑیاں قائم کر کے جہاں اپنی رقم کو جائز منافع کے لیے انویسٹ کیا جاسکتاہے وہیں علاقہ مکینوں کو روز گار کے مواقعے بھی فراہم کیے جاسکتے ہیں۔جس سے علاقہ میں غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا اور علاقہ ترقی کی منازل بھی طے کرے گا پوٹھوار کے بیٹے دھرتی کا قرض چکائیں کوٹھیاں نہیں انڈسڑی لگائیں۔
185