105

عوام اور سیاستدان

سردار بشارت‘پنڈی پوسٹ
آجکل جس محفل میں جائیں ہر طرف یہی بحث اور عوام کا موضوع نظر آتا ہے کہ ملک میں کرپشن عام ہوگئی ہے اس حوالے ہمارے سیاستدان سب سے بازی لے گئے ہیں کہ وزیر اعظم نے کرپشن کی فلاں وزیر نے کرپشن کی فلاں کا گھر امریکہ میں ہے اور فلیٹ لندن میں ہے میرا اس بات سے اختلاف نہیں کہ سیاستدان کرپٹ نہیں ہیں میرا سوال یہ ہے کہ عوام آج کہاں کھڑی ہے 99فیصد لوگ رشوت دیتے ہیں اور لیتے ہیں اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ہم بھول جاتے ہیں ۔آج ہم بجلی کے بل جمع کروانے کیلئے قطار میں کھڑا رہنا گوارہ نہیں کرتے ۔ نوکری کیلئے رشوت اور سفارش کیلئے زرائع ڈھونڈتے ہیں بحیثیت قوم ہم مردہ ہوچکے ہیں اخلاقی حوالے سے آج ہمارہ معاشرہ پستی کی طرف جارہا ہے افراد سے معاشرہ اور معاشرے سے قوم بنتی ہے اور قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ معاشرے میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتی ہیں مگر افسوس آج ہم ہر حوالے سے دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو آج انتہاء پسندی عروج پر ہے ۔ایک دوسرے پر کفر کے فتوے ایسے دیئے جاتے ہیں جیسے اسلام کے ٹھکیدار صرف ہم ہی ہیں ۔آج ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی نئی نسل کو ورثہ میں کیسامعاشرہ‘ کیسا رویہ‘کیسا اخلاق ‘کیسی سوچ دے رہیے ہیں ۔ ذاتی مفاد کیلئے سب کچھ جائز قرار دینا قانون کو توڑناسرکاری املاک کو نقصان پہنچانا دل آزاری کرنا‘چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کام کیلئے رشوت لینا اوردیناسفارش کیلئے زرائع ڈھونڈنا کیا آج ہمارا یہی حال نہیں ہے آج ہمیں معاشرے کے ہر فرد کو اپنا قبلہ درست کرنا پڑیگا ورنہ یہ پست سوچ ہمیں دلدل میں لے جائے گی۔ اب رہی بات سیاستدانوں کی کرپشن کی تو انہیں ایوان تک لایا کس نے ہے کرپشن کو موقع کس نے دیا تو اس کے ذمہ دار بھی عوام ہیں‘ اگر ہم نے پارٹی بازی کو چھوڑ کر پڑھے لکھے باشعور اور اچھے لوگوں کا انتخاب کیا ہوتا تو آج ہمیں اسطرح کی بیان بازی نہیں کرنی پڑھتی ۔کسی بھی ریاست کی طاقت عوام ہوتی ہے ملک کی ترقی اور بہتری کا فیصلہ عوام کے پاس ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے حکمران لوگوں کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں میرٹ کی بُری طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ہر طرف رشوت اور سفارش کا بازار گرم ہے کمیشن مافیا اور ایجنٹ ہر شعبے میں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور عوام کی طاقت سے ایوانوں میں بیٹھے وزیر مشیر اپنا حصہ وصول کر کے اپنی جائیدادیں بیرون ملک بنا رہے ہیں سیاست دان ہو یا عام آدمی سب ذاتی مفا د کی جنگ لڑ رہے ہیں بحثیت قوم آج ہم بکھر گئے ہیں آج ہماری منزلیں اور ہماری سوچ الگ الگ ہو گئی ہے ہم نے اپنی چار دیواری سے باہر سوچنا چھوڑ دیا ہے کبھی وہ وقت بھی ہوتا تھا رات کوئی بھوکا ہو تو بیسیوں لوگ کھلانے آ جاتے تھے آج ہم اپنی موج مستی میں اردگرد دیکھنا گوار ہ نہیں کرتے ہمیں سیاستدانوں سے اختلاف ضرور رکھنا چاہیئے مگر اپنی ذمہ داریاں جو ریاست کی طرف سے ایک فرد پر ہوتی ہیں ہم اس کی کتنی پاسداری کر رہے ہیں یہ سوچنا ہوگا ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگا پھر سے ایک خواب دیکھنا ہو گا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں