165

عوام اور سیاست

ساجد محمود
جمہوریت میں عوام طاقت کا سرچشمہ تصور کیے جاتے ہیں اور سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی مضبوطی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں عوام انتخابی عمل کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو ملک کے نظم و نسق کو چلانے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اگر عوام سیاسی بصیرت اور امیدوار کی اہلیت کو پرکھنے کا ادراک رکھتے ہوں

تو وہ ووٹ استعمال کرتے وقت ایسے باکردار افراد کا چناؤ کریں گے جو ملکی مفادات کا تحفظ کر سکیں اورملک کو درپیش بحران سے نجات دلا سکیں اس لیے ووٹ کا استعمال کرتے وقت ملکی و قومی مفادات کو اہمیت دی جائے اگر کرپٹ افراد انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کر لیں تو وہ عوامی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر اپنے مخصوص سیاسی عزائم کے ذریعے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں

جس کی وجہ سے عوام کے اندر نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں جس کا نتیجہ جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹنے کی صور ت میں سامنے آتا ہے ہمارے ملک کو دو جماعتی سیاسی نظام نے بھی ملک پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا اور طویل عرصہ تک ملک میں موروثی سیاست کا راج رہا مگر یہ دونوں جماعتیں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام نظر آئیں جس کی وجہ سے عوام کے اندر مایوسی پھیلی کیونکہ جمہوریت کی کامیابی اور مضبوطی کادارو مدار عوام کی فلاح و بہبود سے وابستہ ہے

دوسری طرف ان سیاسی جماعتوں کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جنھوں نے غیر آئینی حکومت کا حصہ رہے اور فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کے دعوت نامے ارسال کرتے رہے اور ان کی زبان سے جمہوریت کی بقا کے دعوے کرنا مضحکہ خیز ہے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان میں موروثی سیاست کی جڑیں مضبوط دکھائی دیتی ہیں مسلم لیگ ن میں موروثی سیاست کی واضح مثال ہے حالیہ سیاسی بحران میں میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد بیگم کلثوم نواز کی سیاست میں انٹری اور خاندان کے دیگر افراد کا سیاست میں کردار موروثی سیاست کی غمازی کرتا ہے

دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بھٹو خاندان بھی موروثی سیاست کی واضح مثال ہے موجودہ دور میں تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے ابھری مگر اب دیکھنا ہے کہ تحریک انصاف مستقبل میں کس حد تک اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر موروثی سیاست کے خلاف تیسری غیر موروثی سیاسی پارٹی کا منظر عام پر آنا خوش آئندہ ہے ماضی میں منتخب جمہوری حکومتیں عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں

اور یہ حکومتیں اپنے ماتحت اداروں کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں لیکن ان تمام حالات کے باوجود عوام نے جمہوری نظام کی بحالی کے حق میں فیصلہ دیا مگر فوج کی سیاست میں مداخلت جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹ بنی جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو عدالتی پروانے کے ذریعے نہ صرف اقتدار سے الگ کیا بلکہ پھانسی پر لٹکا دیا لیکن اس کے باوجود اقوام عالم نے دیکھا کہ اسی بھٹو کی بیٹی نہ صرف سیاست میں نام کمایا بلکہ ملک اور عالم اسلام کی پہلی منتخب وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل کیا جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا اور پابند سلاسل رکھا دوست ممالک کے مصالحتی کردار کے باجود انھیں عوامی پذیرائی ملی اور ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے یہ تمام حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں

کہ عوام نے آمریت کے مقابلے میں جمہوری قوتوں کے حق میں فیصلہ دیا مگر اس کے باوجود یہ منتخب عوامی حکومتیں عوام کی زندگیاں بدلنے میں ناکام رہی ہیں موجودہ ملکی سیاست بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور نواز شریف کی نااہلی تک انصاف مکمل نہیں ہوتا بلکہ دیگر افراد جن کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد ہیں ان کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں اس کے علاوہ عوام کو سیاسی شعور کا ثبوت دینا ہوگا ووٹ کے ذریعے مخصوص جاگیردار اور دولت مند طبقہ کی سیاست پر گرفت کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے

تاکہ نچلے طبقہ سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی سیاست میں مداخلت کی راہ ہموار ہو سکے ملک میں جمہوری نظام حکومت سے کسی کو بھی اختلاف نہیں مگر اس عمل کے ذریعے کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دانوں کا راستہ روکنا ہو گااور ان نام نہاد سیاست دانوں سے نجات کا واحد راستہ عوام کے اندر سیاسی شعور کی بیداری ہے مثبت سوچ ملک کے بہتر مستقبل کی راہ کا تعین کر سکتی ہے ورنہ یہ مخصوص مفاد پرست ٹولہ سیاسی لبادہ اوڑھ کر عوامی جذبات سے کھلواڑ کرتا رہے گا موجودہ حالات میں ملک کو شدید بیرونی اور اندرونی خطرات کا سامنا ہے ضرورت اس کی امر کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور ملکی سلامتی کے اداروں کو ملکی مفادات کے پیش نظر درست فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ ملک کو درپیش خطرات اور اندرونی سیاسی بحران سے نجات دلائی جاسکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں