دنیابھرمیں ہرکوئی اپنے وارث پرخوشی کا اظہارکرتا ہے اس کی کوشش وکاوش ہوتی ہے کہ اس کے نیک کام ونیک نام کوآگے پھیلانے کے لیے اس کا کوئی وارث ہو، جانشین ہو، جوبڑھ چڑھ کر حصہ لے اس وجہ سے نیک اولادسے یہی امید لگائی جاتی ہے عام طور پر انسان مال ودولت چھوڑ کر جاتا ہے وہ اس کے لیے فکرمند بھی رہتا ہے اس کی تقسیم اسکے وارثوں میں ہی ہوتی ہے لیکن انبیاء کرام علیہم السلام اس دنیامیں مال ودولت نہیں بلکہ علم جیسی عظیم لازوال بے مثال قیمتی دولت چھوڑ کرجاتے ہیں جس علم کوسیکھنے سیکھانے کیلئے علماء کرام محدثین مفسرین نے اپنی زندگیاں اس کار خیرپرلگا دیں جو لوگ اپنی زندگی کا بیشترحصہ اس کار خیر میں خرچ کرتے ہیں دین اسلام سیکھتے سیکھاتے ہیں وہی لوگ علماء کرام کی صف میں شامل ہوتے ہیں اورانبیاء کرام علیہم السلام کے وارث بن جاتے ہیں انہیں ہم علماء کرام یا عالم دین کے نام سے پہچانتے ہیں یہی وہ وارث انبیاء کرام علیہم السلام ہیں جن کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے
مسلمانوں کی تعلیم وتربیت،امامت وخطابت،درس وتدریس،حفظ وناظرہ کی کلاس،قرآن وحدیث کاعلم، فقہ وسنت کی روشنی،ترجمہ وتفسیرکابیان منبرومحراب کے تقاضے پورے کرناغرض کہ دین اسلام سے وابستہ تمام مسائل وغیرہ کوسمجھ کرآگے امت کو پڑھانا، سمجھانا اور ان کی اصلاح کرنا انکی صحیح معنوں میں ترجمانی کرنا یہ سب علماء کرام کی ذمہ داری ہے کیوں کہ اب نبوت کا سلسلہ توختم ہوچکاآپؐ اللّٰہ تعالیٰ کے آخری نبی ورسول ہیں اس لئے قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی سے لوگوں کے ایمان کومنورکرنا ان علماء کرام کی ذمہ داری میں شامل ہے قرآن مجید میں علماء کرام کے متعلق فرمایا اللّٰہ سے ڈرنے والے یہی علماء کرام ہی ہیں اورحدیث شریف میں نبی اکرم شفیع اعظم نے ارشاد فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث علمائے کرام ہیں ایک دوسرے مقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ الزمر آپؐکہہ دیجئے کہ کیا جو علم رکھتے ہیں اور جوعلم نہیں رکھتے دونوں برابرہیں بیشک عقل وفہم والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں ایک اورمقام پر ارشاد فرمایا سورۃ العنکبوت میں یہ مثالیں جنہیں ہم لوگوں کیلئے بیان کرتے ہیں جس کوصرف علم والے ہی سمجھتے ہیں یہ سب دلائل اہل علم والوں کیلئے ہیں اوراس علم کوحاصل کرنے والے سمجھنے والے سمجھانے والے اوردین اسلام کی تعلیمات،تبلیغ،سربلندی کی کوشش کرنے والے، نشرواشاعت اوردین اسلام کیلئے اپنا مال جان وقف کرنے والے علماء کرام ہی ہیں جیسے جیسے علماء کرام اپنی زندگی دین اسلام میں وقف کرتے جاتے ہیں
ویسے ویسے اللہ انکے مقام مرتبہ کو بلندکرتے ہیں جس سے وہ اللہ کے محبوب بندے بن جاتے ہیں ان کے اندرخشیت الٰہی بڑھتی جاتی ہے غیراللہ کاخوف جاتا رہتا ہے ان کی اللہ کے ہاں قربت ومحبت میں اضافہ ہوتاجاتا ہے فانی دنیا سے لگاؤکم ہوتا ہے دنیاوی خواہشات پرآخرت کی سوچ غالب آجاتی ہے اسی وجہ سے علماء کرام ہروقت اللہ کے گھرسے منسلک ہوتے ہیں زیادہ دیرتک اللہ کے گھرمیں باوضو رہ کراللہ کے دین سے وابستگی اختیارکرتے ہیں وہ دین اسلام اورمسلمانوں کی خدمت کیلئے ہروقت ہرلمحہ نہایت ہی کم وظیفہ پردل جمعی کے ساتھ کام کرتے ہیں ان کومسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے منبرومحراب سے قال اللہ وقال رسول اللہ کی صدائیں بلندکرتے ہیں فجر کی آذان سے لی کرعشاء کے بعدتک بھی وہ مسجد میں موجودرہتے ہیں جبکہ ان کا وظیفہ جومقرر کیا جاتا ہے وہ انتہائی کم ترین ہوتا ہے انتظامیہ کی طرف سے نامناسب رویہ،عدم
توجہی،بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ مسجد کی صفائی ستھرائی کرناباتھ روم صاف کرناان کومسجدکاچوکیدارا سمجھناجیساکہ مسجدکوتالا لگاناکھولنا لائٹسں،موٹر پنکھے بندکرنا وضوکیلئے پانی کا بند و بست کرنا سمیت دیگر وہ کام بھی امام مسجدکے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں
جن کا دوردورتک کوئی واسطہ نہیں ہوتا امام مسجدکے ساتھ یہ افسوس ناک رویہ انبیاء کرام علیہم السلام کے وارثین کے ساتھ نامناسب برتاؤان کی توہین کے مترادف ہے لیکن وہ یہ سب کچھ ناصرف ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں بلکہ وہ یہ اضافی ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھاتے ہیں لیکن اسکے عوض ان کو جو وظیفہ دیا جاتاہے انتہائی کم حتی کے ایک مزدور کی اجرت سے بھی کم آج کے دور میں بھی اگر ایک مزدور مسلسل ایک ماہ مزدوری کرے توماہانہ تیس سے چالیس ہزاربا آسانی کما لیتا ہے جبکہ ایک امام مسجد کوجووظیفہ دیاجاتاہے وہ ایک مزدورکے مہینہ بھرکی کمائی کے نصف سے بھی کم ہے جوانتہائی شرمناک بھی ہے اورافسوس ناک بھی علماء کرام کااحترام صرف یہ نہیں ہے کہ انکے پیچھے کھڑے ہوکرجمعہ المبارک کی نماز پڑھ لی عیدین اداکرلی پانچ وقت فرائض کی ادائیگی مکمل کرلی بلکہ ان کے ادب واحترام کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان کی رہائش کا اعلیٰ بندوبست کیاجائے انکی سہولیات کیلئے ہروہ قدم اٹھایاجائے جوہرانسان کی ضرورت ہے انکے لیے وہ معقول وظیفہ مقرر کیا جائے
جس سے ان کا گزربسر آرام دہ ہوسکے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ہم میں سے ہرآدمی یہ چاہتاہے کہ اسکی آمدنی زیادہ سے زیادہ ہومہنگائی زیادہ ہے بچوں کی کفا لت سکول فیس کپڑے وغیرہ،کھاناپینا،خوشی غمی میں آناجانامشکل ہے لیکن جب یہی معاملات ہمارے محاسن آئمہ کرام کے متعلق ہوتے ہیں یا توہم چشم پوشی سے کام لیتے ہیں یا پھرہم انہیں نظراندازکرتے ہیں جبکہ حدیث شریف میں آتاہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فرمایارسول مقبولؐ نے تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک وہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نا کرے جواپنے لیے کرتاہے اب سب کچھ روزروشن کی طرح واضح ہے ہمارے سامنے ہے اگرکمی ہے توہمارے سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے میں ہے۔