نوید ملک‘ پنڈی پوسٹ/ہمسایہ دوست ملک چین سے اٹھنے والی وبا ء تمام احتیاطی تدابیروں و لاک ڈون کے باوجود دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گئی وبا کا سبب بننے والے وائرس کو COVID-19 کا نام دیا گیا کورونا وائرس نے کررہ ارض پر سپر پاور سمجھے جانے والے ممالک سے لیکر ترقی پذیر ملکوں کے نظام ریاست سے لیکر ان کے اقتصادی معاشی سیاسی و سماجی نظام کو ہلا کر رکھ دیا اس مہلک وائرس سے بچاو کے لئے لاک ڈون کی اصلاح متعارف کروائی گئی جس کے سبب کاروباری و دیہاڑی دار مزدور بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا پاکستان میں بھی کورونا وائرس نہ صرف داخل ہو چکا ہے بلکے ایک محتاط اندازے کے مطابق ابتک 14000سے زاہد افراداسکی لپیٹ میں آچکے ہیں اور 300سے زاہد اموات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں ملک میں لاک ڈون و محدود کارباری و سماجی موومنٹ کے سبب ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا پاکستانی پریشان ہے اور پریشانی کے سبب ملک بھر میں قائم تاجروں کی تنظیموں نے وفاقی صوبائی ضلعی و تحصیلی سطح پر حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے ریلیف کے حصول کے لئے امداد کی فوری فراہمی و ٹیکس میں بھی چھوٹ مانگی ہے تاکہ ممکنہ امداد مل سکے اور اپنے طبقے کو سہولت بھی اس تمام صورت حال میں ہمیں افسوس ہے کہ کئی بھی صحافتی تنظیم متحرک دکھائی نہیں دے رہی وکلاء تنظیموں نے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت سے ایک ایک لاکھ روپے فی وکیل امدادی رقم جاری کرنے کا نہ صرف مطالبہ کر دیا ہے بلکے حکومت کو وکلاء کے لئے فنڈزمختص کرنے کے عمل کو یقینی و تیز بنانے کے لئے باقاعدہ لاہور ہائی کورٹ مین کیس فائل کر رکھا ہے جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان 27اپریل کو وفاقی حکومت کو وکلاء کے لئے فنڈز مختص کرنے کے لئے ایک ہفتے کی مہلت دی ہے فنڈز کی فراہمی کے لئے درخواست وکلاء راہنما اعظم نذیر تارڑ نے دی ہے جس میں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے وکلاء کے لئے 13کروڑ کی گرانٹ جاری کی ہے وکلاء وکالت کے سوا کوئی کاروبار نہیں کرسکتے نقل وحرکت پر پابندی کے باعث سائلین وکلاء تک نہیں پہنچ پارہے شدید مالی بحران کا شکار ہیں جس طرح وکلاء تنظیموں نے اپنے مسائل کے حل لئے متحرک ہوئے افسوس صحافیوں کے حقوق و تحفظ کے لئے بنی درجنوں صحافی تنظیموں میں سے کسی ایک کی بھی ایسی مثال ہمارے سامنے موجود نہیں ہے اسلام آباد پریس کلب کے ہر صدر نے علاقائی صحافیوں کو اپنے اجتجاجی مظاہرے کامیاب کروانے کے لئے مدعو کیا مگر ان کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کئی بھی آواز بلند نہ کئی وفاقی و صوبائی حکومتیں صحافیوں کی بہتری و مراعات کے پروگرامز کا اعلان تو کرتی ہے مگر افسوس یہ تمام مراعات و ثمرات ملک کے بڑے شہروں کے صحافیوں و صحافی تنظیموں کے عہدداروں تک ہی محدود رہتے ہیں علاقائی صحافیوں کو تو ابھی تک کرونا وائرس سے بچاو کے لئے حفاظتی کٹس بھی نہیں پہنچ پائیں امداد تو بہت دور کی بات ہے موجودہ ملکی حالات و کرونا کی لاک ڈون صورت حال کے سبب علاقائی صحافی پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں کیونکہ علاقائی صحافی اپنی نیوز رپوٹنگ کے ساتھ ساتھ نجی کاروباری و تعلیمی اداروں سے اشتہارات بھی لیتا ہے جس سے اسے معقوم آمدن بھی حاصل ہوجاتی ہے لاک ڈون کے سبب سب اداورں کی بندش سے اسکے ذرائع آمدن کے اہم ذریعے پر کاری ضرب بھی پڑی ہے صحافتی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ بھی وکلاء تنظیموں کی طرح اپنے ممبران کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کریں اگر اس مشکل وقت میں بھی صحافیوں کے حقوق کی خاطر بنی تنظیموں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ان کی افادیت تو ماند پڑ ہی جائے گی ساتھ ان تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنی مقبولیت و اہمیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گے گوجر خان کلر سیداں روات جہلم چکوال و دیگر علاقوں میں قائم صحافتی تنظیموں کو علاقائی صحافی کی مدد و حکومتی توجہ حاصل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرناچاہیے ان علاقائی صحافیوں کی رپوٹنگ سے ملک کے باسیوں کو درپیش اہم مسائل نہ صرف ارباب اختیار تک پہنچ پاتے ہیں بلکے ایسی مثالیں بھی موجود ہ ہیں کہ ان علاقائی رپورٹروں کی نیو ز پر اعلی عدلیہ سے لیکر وزیر اعظم و دیگر حکومتی و ریاستی اداروں نے نوٹس لے کر کسی مظلوم کی مدد و کسی جابر وڈیرے رشوت خور ملازم کے خلاف کاروائی عمل میں لائی ہو وزیراعظم عمران خان و وزیراعلی پنجاب جہاں صحافیوں و میڈیا مالکان کی امداد کی بات کرتے ہیں وہاں انھیں علاقائی صحافی کے حقوق و مراعات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ وہ بھی اسی ریاست کے باسی اور انہی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جو ملک بڑے شہروں کے صحافیوں و میڈیا ورکروں کو درپیش ہیں کرونا وائرس سے بچاو کے لئے مرتب حکومتی لاک ڈون کی پالیسی سے ملک کے دیگر طبقات کی طرح تحصیل و یونین کونسل کی سطح پر کام کرنے والے صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ہے امید ہے وزیراعظم و وزیراعلی پنجاب علاقائی صحافیوں کوبھی مراعات میں شامل رکھیں۔
127