118

عظیم قربانی/قاضی عمران

جد الانبیا ء حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ کریم نے صف انبیا ء میں بہت ہی ممتاز مقام سے نوازا۔آپ کی اولاد میں نبوت کو باقی رکھا، خلیل اللہ ہونے کا شرف عطا فرمایا اور آپ کی ذریت میں امام الانبیا ء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت با سعادت عطا کی۔آج دنیا کے سب سے بڑے الہامی مذاہب ، اسلام ، عیسایت اور یہودیت میں حضرت ابراہیم ؑ کو عزت و فضیلت کے ساتھ اپنا امام اور پیشوا تصور کیا جاتاہے۔ اسلام کی سب سے اہم عبادت نماز میں درور ابراہیمی اور اس درود میں حضرت ابراہیم ؑ کی ذات اور آپ کی آل پر درود و سلام ، آپ کے مقام و مرتبے کی رفعت پر شاہد ہے۔جب آپ کو اس قدر عظیم رتبے پر فائزکیا گیا تو اس سے قبل آپ کو ایسی شدید آزمایشوں سے گزارا گیا کہ جہاں میں کسی اور پر ایسی آزمایشیں نہ آیں، اگرچہ اس بات میں بھی کچھ شک نہیں کہ تمام انبیا ء کو شدید آزمایشوں کا سامنا کرناپڑا مگر سب کی نوعیت مختلف تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ کو پے درپے سخت مصایب وآلام درپیش آے مگر آپ صبر ، استقامت اور استقلال کے امام ٹھہرے۔کفر و شرک کے ماحول میں پروان چڑھنے والے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے معبود حقیقی کی تلاش جاری رکھی اور بالآخر خدا کی رحمت نے آپ کو اپنی معرفت و شناسائی کی دولت سے نوازا۔ یہ ایسے ماحول کی بات ہے جہاں خداے واحد اور معبود حق کو پکارنے والی صرف ایک ہستی حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ ہیں اور تمام قوم اللہ کی توحید و معرفت سے نآشنا ہے۔ ہر گھر میں بت تراشے ، پوجا کیے اور فروخت کیے جاتے ہیں ۔ اس وقت کے ظالم و جابر انسان نمرود نے اپنے خدا ہونے کا اعلان کیا اور عوام سے اپنی پرستش کرواتا ہے۔ایسے ماحول میں اللہ کے خلیل نے اعلاےکلمۃاللہ بلند کیا اور قوم کو ایک خدا کی عبادت اور توحید کی دعوت دی جس پر لوگ آپکے مخالف ہوگیے۔جب قوم مذہبی تہوار پر شہر سے دور ایک خاص علاقے میں جمع تھی حضرت ابراہیمؑ نے موقع غنیمت جان کر تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور ایک بت کو باقی چھوڑا اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھ دیا۔ قوم کے افراد نے واپس لوٹ کر جب اپنے معبودان باطلہ کا یہ حال دیکھا تو سخت پریشان ہوے سب کو یقین گزرا کہ ایسا کرنے والے ابراہیم ؑ ہی ہوسکتے ہیں چنانچہ آپکو بلایا گیا اور استفسار کیا گیا، آپ نے جواب دیا کہ جو بت اپنی حفاظت نہیں کرسکتے وہ تمہاری حفاظت کیسے کر سکتے ہیں ۔ پھر آپ نے کہا اس بڑے بت سے پوچھ لو کہ انہیں کس نے توڑا ہے، تو قوم کے افراد نے کہا اے ابراہیم تم نہیں جانتے کہ یہ بول نہیں سکتے، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کیا تم ایسے بتوں کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے سکتے ہیں نہ ہی نقصان۔چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کو نمرود کے دربار میں طلب کیا گیااور وہاں آپکا نمرود سے مناظرہ ہوا۔نمرود نے سوال کیا آپکا رب کون ہے؟ آپ نے جواباً کہا میرا رب زندگی اور موت کا مالک ہے، اس پر نمرود نے قید خانے سے دو قیدی بلاے ایک کو قتل کروادیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہا کہ دیکھو زندگی اور موت تو میں دے سکتا ہوں، اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے ، اگر تو خدا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔ یہ دلیل نمرود کی خدائی پر قاری ضرب ثابت ہوئی، اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا وہ حیران اور ششدر رہ گیا۔ اپنی حکومت کیلیے اسے حضرت ابراہیم ؑ شدید خطرہ معلوم ہوےچنانچہ اس نے آپ کو آگ میں زندہ جلا دینے کا حکم دیا۔ کئ دنوں تک ہزاروں من لکڑیوں کاایندھن جلاے رکھا گیا اور جب آگ کے شعلے فلک کی بلندیوں کو چھوتے معلوم ہوےاور اس کی تپش میلوں دور تک حرارت پھینکنے لگی تب حضرت ابراہیمؑ کو رسیوں سے جکڑ کر آگ کی طرف جھونک دیا گیا۔ خلیل اللہ صبر کے ساتھ اللہ کی رضا پر راضی آتشکدہ نمرود کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ملایکہ نے دست بستہ حضرت خلیل سے التجا کی کہ بارگاہ الٰہی میں دست دعا بلند کریں تاکہ آپ اس تباہی سے بچ جایں۔پیکر صبر و رضا نے کہا کہ میرااللہ خوب جانتا ہے۔ چنانچہ قرآن واقعہ نقل کرتے ہوے بیان کرتاہے کہ اللہ کے حکم سے آگ گلزار بن گئ اور یوں نمرودکامنصوبہ ناکام رہا۔اللہ کے خلیل کو خواب میں حکم عطا ہوا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ، یا د رہے یہ وہ اکلوتی اولاد ہے جو اللہ کی خصوصی رحمت سے آپکو بڑھاپے میں عطا ہولی اور اسی کی نسل سے نبوت خاندان ابراہیم ؑ میں جاری رہی۔جب آپ نے بیٹے سے اس غرض سے بات کی کہ حکم الٰہی کی تعمیل میں بیٹے کی نیت و رضا شامل ہوجاے60 اور بیٹے کو اس عظیم آزمالش پر رضاے الٰہی کا منصب حاصل ہو،بیٹے نے کہا کہ آپکو جو حکم عطا ہوا اسے پورا کریں اللہ نے چاہا تو مجھے صابروں میں سے پایں گے۔چنانچہ حکم خداوندی کی تکمیل کے لیے خلیل ؑ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی ، چھر ی چلی پر بیٹے کو تدبیر خداوی نے بچا لیا اور اس کی جگہ ایک دنبہ ذبح ہوگیا۔ اللہ کے خلیل نے اس شدید آزمالش میں صبرو رضا کے سوا کو لی اور راستہ اختیا ر نہ کیا۔ اپنے محبوب بندے کی یہ قربانی بارگاہ الٰہی میں اتنی مقبول ہولی کہ قیام قیامت تک سرور کونین کی امت پر اس عظیم قربانی کی یاد میں جانور ذبح کرنا واجب ٹھہرایا گیا ۔ امتحان گاہ دنیا میں منشا ے الٰہی پر استقامت کے ساتھ صبر کرنیوالے یوں رہتی دنیا تک ذکر خیر کے ساتھ عزت و شرف سے نوازے جاتے ہیں۔کفر وشرک کے اندھیروں میں عشق و وفا سے توحید و رسالت کا چراغ روشن کرنے کے لیے حضرت خلیلؑ جیسی لازوال قربانیوں کی ضرورت پڑھتی ہے۔ یہ وہ قربانی ہے جس سے دین متین کی ابتدا ہے ، ایک قربانی وہ ہے جس سے تکمیل دین کے بعد دین کو بقاے دوام نصیب ہوا، وہ بلا شبہ حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کی لازوال قربانی ہے۔امامت کا دروازہ حضرت خلیل نے کھولا اور حضرت حسینؓنے اس کی حفاظت کی اور اسے قرب قیامت میں آل حسین ہی کا ایک فرد پایہ تکمیل کو پہنچاے60گا۔اسی لیے اقبال نے تڑپ کر کہا:
بہت سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ اور ابتدا ہے اسماعیلؑ{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں