پروفیسر محمد حسین
بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر مختلف ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے وہ کیا عمومی رویے ہیں جن کی اصلاح ہر ایک پرفرض ہے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ صبح سے شام تک ہم اپنے معاشرے میں موجود ہزاروں لاکھوں انسانوں کو مختلف اوقات میں مختلف کام کر تے دیکھتے ہیں جب ہم اصلاح کی نظر سے باہر کی دنیا کو دیکھتے ہیں تو سب سے عمومی رویہ جو ہمارے دلوں پر ہماری طبیعتوں پر بار محسوس ہوتا ہے وہ عدم برداشت ختم ہوکر غصہ اور نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کا مظاہرہ آئے دن ہمیں گلی کوچوں بازاروں دفتروں ہسپتالوں سکولوں کالجوں غرض ہر طبقہ فکر میں نظر آتا ہے جگہ جگہ پر دھکم پیل ‘بحث مباحثہ ‘بزرگوں اور خواتین کا احترام نہ کرنا ‘چیخ چیخ کر بولنا ‘گالی گلوچ ‘قطارنہ بنانا ‘چھوٹی چھوٹی باتوں کو جھگڑے کا رنگ دینا یہ سب عدم برداشت کی واضح مثالیں ہیں جوہمارے معاشرے میں جابجا دکھائی دیتی ہیں اگر پوری کائنات کو ایک عمارت تصور کر لیا جائے تو وہ ایک ہی ستون پر کھڑی ہے اور وہ ہے برداشت کا ستون اگر اس ستون کو گرا دیا جائے توکا ئنات کا بظام درہم برہم ہوجائے کائنات میں بیک وقت متضاد قوتیں ‘متضاد عوامل اور متضاد جذبے پیدا کئے گئے ہیں لیکن وہ متضاد ہونے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ باہمی روابط رکھے ہوئے اور بقائے باہمی کے اصول کے تحت اپنا وجود پر قرار رکھتے ہیں یعنی وہ متضاد ہونے کے باجود ایک دوسرے کو برداشت ہیں ہم روز مرہ کے مشاہدے میں دیکھتے ہیں کہ پھولوں کے ساتھ کانٹے ہیں دن کے ساتھ رات ہے آگ کے ساتھ پانی ہے ان سب کی متضاد صفات ہیں لیکن وہ بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے اپنی متضاد صفات کو اجاگر کرتے رہتے ہیں نظام شمسی کے بارے میں سورۃ یٰسین میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’سورج کو طاقت نہیں کہ وہ چاند کوپکڑے اور نہ ہی رات کو اختیار ہے کہ وہ دن سے پہلے آجائے اور سب اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں ‘‘گویا وہ اگر کوشش بھی کریں تو وہ کائنات میں موجود مرکز گریز اور مرکز کشش طاقتوں کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے اور یہ طاقتیں انہیں متصادم کرنے کے بجائے ایک مدار پر حرکت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں گویا ہر طاقت کا ایک مدار بن جاتا ہے جس سے اس کی طاقت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور تصادم کی نوبت بھی نہیں آتی اور کائنات صدیوں اور قرنوں سے متضاد طاقتوں کی حامل ہونے کے باوجود قائم ودائم ہے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سلامتی اور بقا ء کا راز صرف اور صرف دوسروں کو برداشت کرنے ہی میں مغمر ہے یہ اصول صرف کائنات کی ہر تخلیق ہی میں نظر نہیں آتا بلکہ انسانی معاشروں اور انسانی تحقیقات میں بھی کار فرما ہے جب اور جہاں برداشت کا یہ عمل کمزور پڑتا ہے یا ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے وہاں صرف اور صرف تباہی اور موت کا راج ہوتا ہے عدم برداشت کے رویے جہاں تباہ کن اثرات کے حامل ہورہے ہیں وہاں وہ اس معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی ‘ناقابل حل مسائل اور کم عملی اور جہالت کے آئینہ دار بھی ہوتے ہیں اور خالی برتنوں سے زیادہ آوازیں برآمد ہوتی ہیں عقلمند اور عالی ظرف انسانوں کا دل سمندر کی طرح ہوتا ہے جس میں بہت کچھ سما جاتا ہے چھوٹی موٹی بارشیں اور طوفان ان میں طفیانی نہیں لاسکتے ہیں ان کے چہرے پرسکون ‘ہونٹوں پر خاموشی ہوتی ہے یامسکراہٹ ‘خاموشی مسائل حل کرنے کے لئے اور مسکراہٹ مسائل سے بچنے کے لئے ہوتی ہے ایسے لوگ اور ایسے معاشرے خدائی قانون سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں اور ان کو ہی مثالی معاشرے کہا جاتا ہے جو سمندر کی پر سکون اور بادبہاری کی طرح معطر ہوتے ہیں ایسے معاشرے بھوک اور خوف سے آزاد معاشرے ہوتے ہیں دنیا میں انسان کے دو سب سے بڑے اور بدترین دشمن ہیں ایک بھوک اودوسرا خوف ثابت ہوا کہ دنیا میں خداکا انعام اور اس کے اپنے بندوں سے راضی ہونے کا انحصار بھوک اور خوف سے پاک معاشرے پرہی ہوتاہے جس معاشرے میں بھوک اور خوف نہ ہو وہاں برداشت کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے وہی معاشرہ انصاف پر مبنی معاشرہ ہوتا ہے وہیں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے ایسا معاشرہ ہی فروعی جھگڑوں اور فتنہ وفساد سے پاک ہوتا ہے جہاں دوسروں کی رائے کا جواب دیا جاتا ہے جہاں اختلاف رائے کود شمنی پر محمول نہیں کیا جاتا جہاں قانون خود ہاتھ میں لے کر خود ہی منصف بن کر فیصلے نہیں کئے جاتے اور جہاں ایسا نہیں ہوتا بات بات پر قتل وغارتگری کی جاتی ہے نہ خود کو عقل کل اور دوسروں کو جاہل مطلق سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی زندگی جو خدا کی امانت ہے اسے اپنی اپنی مرضی سے مٹا دیا جاتا ہے ایسا معاشرہ خدا کی طرف سے انسانوں پر سزا کے طور پر مسلط ہوتا ہے کیو نکہ اس معاشرے میں خدائے واحد کی بجائے کئی خود ساختہ خداؤں کی حکمرانی ہوتی ہے اور اس سب کی تہ میں بھوک اور خوف جیسے انسانوں کے بدترین دشمن چھپے ہوئے ہیں جو انسانوں سے انسانیت چھین کر انہیں درندہ بنا دیتے ہیں ان کے اندر سے صبر اور برداشت کے مادے ختم کر دیتے ہیں اور ان سے علم وحکمت کی دولت چھین لیتے ہیں یایہ دولت حاصل ہی نہیں کرنے دیتے فساد انتشار اور خوف میں گھرے ہوئے ایسے معاشروں میں کبھی نیکی کبھی خدا اور کبھی روایات کے نام پر صرف بھوک اور خوف کو ہی بڑھا وادیا جاتا ہے جب زندگی کی تلاش بھی موت کے ذریعے ہی کی جاتی ہے خوف اور بھوک میں مبتلا یہ معاشرے انسانوں کو کفر اور انکار کی آگ میں جلا کر راکھ کر دیتے ہیں اور ایک دن اپنے تمام تر دکھوں اور مسائل کے ساتھ یہ معاشرے خود بھی موت کا شکار ہوجاتے ہیں ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے چینی ‘انارکی ‘غصہ اور عدم برداشت ہمیں ٹریفک نظام سے لے کر ہر اس نظام میں نظر آتی ہے جس کا بنیادی مقصد ہمیں بھوک اور خوف سے نجات دلانا ہوتا ہے ذراسوچئے کہ اگر ہم نے ابھی بھی بھوک اور خوف کے عٖفریت پر قابونہ پایا تو انسانی معاشرے کا بنیادی ستون یعنی برداشت جو پہلے ہی شکستہ ہوچکا ہے ٹوٹ جائے گا اور اس کے نتیجے میں جو خوفناک تباہی آئے گی اس کے ابتدائی مناظر کو ہم روزانہ اپنے ارد گرد دیکھ ہی رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاشرے میں موجود اس عدم برداشت کے رویہ کی اصلاح کی توفیق دے (آمین)
129