332

عبدالخطیب چوہدری ‘ نامہ نگار سے ایڈیٹرتک

چوہدری ساجد بنگیال
ایڈیٹر:محرم راز راولپنڈی
ترقی کے اس دور میں جہاں سوشل میڈیا اپنے پورے عروج پر ہے اور الیکٹرونک میڈیا کا طوطی بول رہا ہے وہاں پرنٹ میڈیا کی اپنی جگہ اہمیت برقرارہے اور ہمیشہ رہے گی کیونکہ ٹیلویژن پر نیوز بریک ہوئی اور نکل گئی مگر پرنٹ میڈیا کی سٹوری کئی سال تک یاد رکھی جاتی ہیں ہفت روزہ پنڈی پوسٹ کی آج پانچویں سالگرہ ہے اور ان پانچ سالوں میں جس خوبصورت رفتار،جس محنت ،لگن ،دیانت اور جانفشانی سے پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری اور ان کی ٹیم کے دیگر ساتھیوں نے اس ’’ہفت روزہ ‘‘ پنڈی پوسٹ  کو عوام کی امنگوں کے مطابق،علاقہ کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایااور یہ فریضہ اپنے انتہائی محدود وسائل میں سر انجام دیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے بالخصوص موجودہ تیز ترین دور میں مقابلہ کا رجحان پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے اور پہلے کی نسبت اب ہر شعبہ میں جدت کا رجحان ہے چنانچہ شب وروز کی محنت سے پنڈی پوسٹ کی ٹیم نے ہر چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کیا ،گو کہ کچھ لوگ شاید یہ سمجھتے ہوں کہ چار صفحات پر مشتمل اخبارچلانا کو ئی آسان کام ہے تو ایسا ہر گز نہیں کیونکہ تعمیری صحافت میں چار صفحات کو مثبت اندازمیں شائع کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا پھر تحصیل پنڈی کے ایک چھوٹے سے قصبہ سے اسکا اجراٗء بھی کافی اہمیت کا حامل ہے مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے ایک عزیز جس کی زمانہ طالب علمی میں میرے ساتھ اس قدر قربت تھی کہ کئی بار انتہائی مصروفیت کے عالم میں بھی معصومانہ انداز سے کسی خبر یا بیان کی اشاعت کا اصرار کرنا اور پھر دھیمے انداز میں مجھے اس کی اہمیت سے بھی آگاہ کرنا مجھے آج بھی یاد ہے کہ طالب علمی کے دور میں عبدالخطیب چوہدری میرے پاس اکثرآیا کرتے اور میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ان کا حوصلہ بڑھاتاپھر جلد ہی موصوف روزنامہ اساس سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اوراتنی ہی خاموشی سے چوہدری عبدالخطیب نے اپنا سفر شروع کردیاکہ کامیابی ان کے قدم چومنے لگی یہاں البتہ کئی بار نامسائد حالات کا سامنا خیر اس سفر کا حصہ ہے اس کا شاید ہی کسی کو اندازہ ہو سکے مگر مجھے وہ پر مسرت لمحات یاد ہیں جب خوشگوار حیرت سے صبح صبح چوہدری خطیب اپنی کسی خبر کو اٹھا کر مجھے دکھانے میں فخر محسوس کرتے اور وہ لمحات میں اپنی خوبصورت یادوں کے خزینے میں محفوظ کر لیتاپھر کچھ صحافتی مصروفیات بڑھ گئیں اور مجھے فرائض منصبی کے لئے لاہور جانا پڑااسی دوران محرم راز کے نام سے ایک اخبار شائع کیا جس میں بھی مگن ہو گیا ،گویا مجھے اس وقت بھی چوہدری خطیب میں مستقبل قریب میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ محسوس ہوتا تھااسی دوران جب ملاقات ہوئی تو مجھے مژدہ سنایا گیا کہا اب کوئی قدم اٹھانا ہے اور پھر 2012 کے آغاز میں چوہدری عبدالخطیب نے باقائدہ اپنا خبار شائع کرنے کا عندیہ دے دیا جس پر تھوڑی بہت گفت و شنیداور مثبت بعث مباحثہ کے بعد پنڈی پوسٹ نام کا انتخاب ہو گیا اور یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کی مناسبت سے اس کی اشاعت کا فیصلہ ہو گیا یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ لاہور سے واپسی اور پھر راولپنڈی میں انتہائی مصروفیات کی بنا پر میں جس قدر اپنے کسی دوست یا عزیز کو وقت دے سکتاتھا یا دینا چاہئے تھا شاید اتنا تو نہ دے سکا مگر گاہ بگاہ ملاقاتیں جاری رہیں میری اپنی رائے میں جس محنت سے عبدالخطیب چوہدری نے پنڈی پوسٹ کو قارئین کی ضرورت اور علاقائی مسائل کو اجاگر کر کے عوام کی توجہ اپنی اور ہفت روزہ کی طرف مبذول کرائی اس سے کہیں زیادہ محنت اس میں سید آصف شاہ کی بھی ہے گو اخبار کی کامیابی ٹیم ورک ہے مگر انفرادی طور پر بھی سید آصف شاہ مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے عبدالخطیب چوہدری کے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں رات دن ایک کیا اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آصف شاہ صاحب نے پنڈی پوسٹ کے لئے سخت محنت کی ہے کبھی کسی مرحلے پر بھی چوہدری خطیب کو یہ احساس نہ ہونے دیاکہ ان میں کسی مقام پر ان کے چھوٹے بھائی مرحوم محمد حبیب کی کمی محسوس ہو سکےء یہاں تھوڑا تذکرہ میں محمد حبیب’( مرحوم) کا کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور دلی دکھ بھی ہے کہ آج اگر حبیب زندہ ہوتا تو اسے کس قدر اور کتنی خوشی محسوس کرتا کہ جس دور میں ان بھائیوں نے انتہائی محدود وسائل میں کام شروع کیا اور جس قدر اتفاق ور اتحاد سے قابل زکر مقام حاصل کیا اس میں محمد حبیب کی محنت کا ذکر نہ کرنا انصافی ہوگی بحرحال اللہ کا نظام ہے ہر ذی روح نے اس دنیافانی سے اپنے اپنے مقررہ وقت پر جانا ہے گو ایک دن محمد حبیب (مرحوم)بھی اپنے عزیزوں اور دوستوں کو’’ داغ مفارقت ‘‘دے گئے ان کا ذکر اس لئے بھی ضروری تھا کہ اب ہمارے بھائی(مرحوم) اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور پنڈی پوسٹ اب اللہ کے فضل سے بام عروج پر ہے، آج علاقہ بھر چکری چونترہ ،چک بیلی خان، گوجرخان اور کلرسیداں کے بچے بچے کو پنڈی پوسٹ کا نام نہ صرف یاد ہے بلکہ فخر سے اس کا نام لیا جاتا ہے یہاں ذکر کرتا چلوں کہ کچھ عاقبت نااندیشوں نے پنڈی پوسٹ کو ’’چھوٹا پرچہ‘‘ سمجھ کر کچھ نیوز پر اختلاف کیا اور پھراپنی حکومتی طاقت کی باعث دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا جس کی ہم نے اس وقت بھی مذمت کی تھی اور آج بھی ہر اس فرد کی مذمت کرتے ہیں جو تعمیری صحافت کے حامل’’ کرداروں‘‘ کو دھونس دھاندلی کے ذریعے دبانے کی کوشش کریں ،کیونکہ صحافی کا کام عوامی مسائل کوحکام بالا تک پہنچانا اور معاشرہ میں منفی سرگرمیوں کی روک تھا م کے لئے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی توجہ مبذول کروانا ہوتا ہے خبر کی اشاعت کا مقصد بھی عوامی فلاح ہی ہوتی ہے اگر حقائق پر مبنی رپورٹ پر کوئی غم وغصہ کرے تو اس کو اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھنا چاہئے نہ کہ اخبار کے’’ رپورٹر زیا مدیر‘‘ کو دھمکیاں دینا شروع کر دے یہاں اس کا ذکر اس لئے بھی ضروری تھا کہ کچھ عرصہ قبل پنڈی پوسٹ کی ٹیم کو ایسے حالات کا سامنا رہا تھا میں ذاتی طور پر مبارک باد پیش کرتا ہوں پنڈی پوسٹ کی ٹیم کو جنہوں نے ناممکن کو ممکن بنا کر قارعین کو پنڈی پوسٹ جیسا ’’مقامی اخبار‘‘ مگر مستند اخبارمہیا کر کے ثابت کر دیا کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا ‘‘کے مصداق انتہائی محدود وسائل میں مثبت صحافت کو فروغ دے کر پنڈی پوسٹ نے اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئے اوراپنے کامیابی کے ساتھ پانچ سال مکمل کر لئے اللہ تعالی اس ٹیم کو مزید کامیابیاں عطا فرمائے ’’آمین یا رب العالمین{jcomments on}‘‘

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں