رکن قومی اسمبلی قمرالسلام راجہ سے پہلی ملاقات شاید 2009ء کے اوائل میں انکے انتخابی دفتر چوک پنڈوڑی کلرسیداں میں ہوئی جب وہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوکر عوام مسائل سننے کے لیے ہراتوار کو اپنے دفتر میں حاضرہوتے تھے ایک وفد کے ہمراہ مجھے بھی دفتر جانے کا اتفاق ہوا وہاں کا ماحول دیکھ کر ششدر رہ گیا عام سی عمارت میں بنے دفتر میں حلقہ بھر سے آئے مہمانوں اور سائلین کا رش تل دھرنے کی جگہ نہ تھی بجائے اس کے کہ سائلین باری باری ان کے پاس جاتے بلکہ قمرالسلام راجہ خود اپنی کرسی کو اٹھائے سائلین کے پاس پہنچ کر مسائل سنتے نوٹ فرماتے۔
دفترمیں ملازمین کی ریل پیل تھی اور نہ ہی مہمانوں کی خاطر و تواضع کے لیے کوئی وسیع انتظامات تھے ایک سائیڈ پر نصب کولر کے ساتھ میز پر چند صاف ستھرے گلاس رکھے ہوئے تھے قریبی ہوٹل کا ملازم ہر تھوڑی دیر کے بعد ایک ٹرے میں چائے کے سنگل کپ جسے روایتی زبان میں کٹ یعنی آدھی چائے کی پیالی لیکر مہمانوں کو پیش کرتا۔ ایک نوجوان ڈائری لیے ہر آنیوالے فرد کا نام و پتہ اور فون نمبردرج کیے جارہاتھا
یہ چودہ پندرہ برس قبل کا منظر اس وقت میری یادداشت میں گھوما جب ایک کالج فیلو طویل عرصہ بعد لکژری گاڑی کی چابی ہاتھ میں تھامے ہوئے دفتر میں حاضر ہوا حال احوال و خیر و عافیت جاننے کے بعد
اس نے کہا کہ ٓاپ سے مشاورت کرنے حاضر ہوا ہوں آپ کو علم ہی ہے کہ کالج کے زمانہ میں ہمارے گھریلو حالات انتہائی پتلے تھے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے تعلیم کا سلسلہ پورا کرنے کے بعد سرکاری و پرائیویٹ ملازمتوں کی تلاش میں مارے مارے پھرنے کی بجائے آبائی علاقہ میں چھوٹی نوعیت کا کاروبار شروع کیا.
محنت ایمانداری اور صبر کے فارمولے پر عمل پیرا رہا چند ہی سالوں کے بعد ملٹائی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ کام کا موقع مل گیا اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی رزق میں برکت بھی دی الحمدللہ خوشحال ہوں جس طرح میں زمانہ طالب عملی میں کالج کی سیاست میں متحرک تھا اب میں ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہوں
آپ میڈیا کے بندے ہیں سیاستدانوں کے ساتھ اچھے تعلق ہیں آپ بہترین مشورہ دے سکتے ہیں چونکہ ہمارے علاقہ میں سیاست کے لیے پیسے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے.
تھانہ کچہری اور گلی نالی کی سیاست میں بھی بھرپور فعال رہنا پڑتا ہے دھڑے بازی اور مخالف گروہ میں ہمیشہ سرد جنگ رہتی ہے ایک دوسرے کو نیچا دیکھنے کے لیے ہر جائز و ناجائزکام‘ حربے اور ہتھکنڈوں سے کام لیا جاتا ہے دوست کی باتیں پوری توجہ و دھیان سے سنتا رہا ابھی ایک مکمل ہوئی تھی میں نے جواب دینا چاہا لیکن ساتھ ہی پھر گویا ہوا کہ چند ماہ قبل مجھے اپنے علاقہ کی یونین کونسل کے چیئرمین کے ہمراہ عوامی اجتماع پر جانے اتفاق ہوا وہاں مقامی تھانہ پولیس کی نفری سیکورٹی کے لیے مختلف پوائنٹ پر تعینات تھی .
چیئرمین صاحب ہر پوائنٹ پر گاڑی روکتے پانچ سو نوٹوں کی بنی دستی سے ہر پولیس ملازم کو پانچ سو روپے کا نوٹ ان کے ہاتھ میں زبردستی تھامتے ان کا حال و احوال پوچھتے اور آگے نکل جاتے میں یہ منظر دیکھ کر حیران ہوتا رہا پھر ہمت کر کے پوچھ لیا کہ جناب پولیس اہلکار تو سرکاری ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور آپ خواہ مخواہ کیوں پیسے تھمائے جارہے ہو۔
چیئرمین صاحب گویا ہوئے کہ سیاست کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں لوگوں کے ساتھ پولیس والوں کو بھی خوش رکھنا پڑتا ہے کل کلاں جب میں کسی کیس کے سلسلہ میں سائلین کے ساتھ تھانہ میں جاؤں گا تو یہی اہلکار ہماری عزت کا باعث بنیں گے ہماری بات کو فوقیت دینگے تو ووٹروں کے سامنے ہماری عزت بنے گی ورنہ تو یہ پوچھتے تک نہیں۔ ابھی یہ بات مکمل کی تھی ساتھ ہی کہنے لگے ایک اوربات بھی سنیں جی کہ جب سے لوگوں کو پتہ چلا ہے کہ میں ویل سیٹل ہوں گاہے بگاہے لوگ مجھے مختلف تقریبات میں بطور مہمان خصوصی آنے کی دعوت دیتے ہیں.
میں خوشی سے قبول کرلیتا ہوں موقع اور تقریب کی مناسبت سے استطاعت کے مطابق موقع پر ہی انعام و ڈونیشن بھی دے دیتا ہوں۔
لیکن گزشتہ ہفتہ علاقہ سے نوجوانوں کا ایک وفد حاضر ہوا کہ ہم یونین کونسل کی سطح پر کھیلوں کے مقابلے کروانے جارہے ہیں فائنل پر آپ کو بطور مہمان خصوصی کو مدعو کرنا چاہتے ہیں میں نے اس کو اعزاز جانتے ہوئے حامی بھر لی ایک نوجوان نے برملا کہا کہ جناب آپ کتنی حد تک انعام یعنی نقدی دے سکتے ہیں چونکہ ایک اور مہمان بھی مدعو ہیں انہوں نے اتنی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے یہ سن کر مجھے خاموشی لگ گئی اور مہمان خصوصی بننے سے معذرت کرلی جس کی وجہ سے میں پریشان ہوں کیا .
میں نے غلط تو نہیں کہہ دیا؟ کیا میں اس طرح کے معاملات اور سرگرمیوں میں حصہ نہ لوں اور اداروں کو خوش کرنے کے لیے رشوت نہ دوں تو پھر میں کامیاب کیسے ہو پاؤں گا؟اس کی باتوں کے دوران چونکہ میرا ذہن قمرالسلام راجہ کی سیاست کے گرد گھوم رہا تھا اس لیے میں نے ان کی سیاست کاحوالہ دینا مناسب جانتے ہوئے کہا کہ آج کل وہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی راولپنڈی کے کنوینئر ہیں یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کے ووٹروں اور چاہنے والوں کے لیے ایک اعزاز ہے انہوں نے روایتی سیاست کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کے لیے ایک ایسا قدم اٹھایا کہ آج بڑوں بڑوں کی آنکھیں دیکھتی رہ گئی ہیں
وہ فخریہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی وڈیرے اور لینڈ لاٹ کے صاحبزادے نہیں بلکہ ایک ہیڈ کلرک اور استانی کے بیٹے ہیں انہوں نے سیاست کا آغاز پانچ ہزار روپے ایڈوانس بھیج کر اپنے گلے پھولوں کے ہار پہننے والے سیاستدانوں کی طرح نہیں کیا بلکہ بس کے اندر کھڑے ہوکر سیٹوں پر بیٹھے ہوئے علاقہ کے لوگوں کو اپنا پیغام دیکر کیا کہ وہ آپ میں سے ہے اور آپ لوگوں کی آواز بننے کے لیے سیاست کے میدان میں قدم رکھ رہا ہے.
انہوں نے تھانہ کچہری اور نام نہاد کھڑپینچی کی سیاست کی روش کو پس پشت رکھ کر میرٹ اور انصاف کی بات کی راستے کی الجھنوں کو بزور بازو شکست دینے کی بجائے عام آدمی کارواں بنا کر مخالفین کے ارادوں کو خاک میں ملا کر امر ہو گئے آج وہ نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بن چکے ہیں اگر آپ نے بھی سیاست کرنی ہے تو پھر آپ کو لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانی ہوگی عام آدمی کی بات کرنی ہوگی چونکہ کامیابی عام آدمی کے کارواں میں ہی ہے