217

طلاق اور خودکشی کا بڑھتا ہواو رحجان

آج ہم جس وقت اور معاشرے میں جی رہ رہے ہیں اسکو اب تک کا تیز ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ ہر انسان نفسا نفسی کا شکار ہے۔ زندگی کی دوڑ اور سہولیات حاصل کرنے کیلئے ہم میں سے ہر شخص اپنی طاقت لگا رہا ہے۔ آج ہم نے اپنی پوری قوت دنیاوی زندگی کی سہولیات حاصل کرنے میں لگا دی ہے۔ اس تگ و دو میں ہم نے وہ تمام چیزیں پس پشت ڈال دی ہیں جن سے معاشرے میں امن و سکون قائم ہوتا ہے اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل پانے میں مدد دیتے ہیں۔ تیز رفتار زندگی میں ہم نے سب سے پہلے جس چیز کو کھویا ہے وہ ہے وقت جو کائنات بلکہ معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ پوری کائنات میں وقت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ پوری کائنات اور اس دنیا کا نظام وقت پہ قائم ہے۔ جیسے سورج چاند زمین کے چکر میں موسم بدلتے ہیں اسی طرح وقت

انسانی زندگی اور معاشرے میں اہمیت کا
حامل ہے۔ وقت دورانیہ بھی کہلاتا ہے اور وقت کی اصطلاح ساتھ دینے (وقت دینے) میں استعمال ہوتی ہے۔ موجودہ طرز زندگی میں ہم نے اپنی مصروفیت میں سے وقت کی اہمیت کھو دی ہے جیسے اپنی نوکری بزنس کام کرتے ہوئے اپنے اپ کو یا اپنے ساتھ جڑے ہوئے رشتوں کو وقت دینا انتہائی کم کردیا ہے۔ اور یہی سے تمام مسائل جنم لے رہے ہیں۔ وہ کچھ اس طرح کہ مثلاً والدین نے اولاد کو اور اولاد نے والدین کو وقت دینا چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کا رشتہ ایک دوسرے کو سمجھنے، برداشت کرنے اور زندگی کو بہتر طریقے سے گامزن کرے رکھنا ہی کامیابی ہے۔صرف پیسے کما کر سہولیات خرید کردینے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ رشتوں کو وقت دینا پڑتا ہے تب جا کر مسائل کو سمجھ کر حل کیا جاسکتا ہے۔ آج معاشرے میں خودکشی اور طلاق کی شرح انتہائی اوپر چلی گئی ہے۔ خودکشی کرنا ہر مزہب میں حرام ہے اور دین اسلام میں تو مزید سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔

اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرنا باعث عذاب ہے۔ زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں لیکن انسان اشرف المخلوقات ہے محنت کوشش اور تدبیر سے مشکلات کا حل نکل جاتا ہے۔ معاشی مسائل ہوں، رشتوں میں ناکامی ہو،مناسب وقت اور کوشش کے باعث حل ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں بے روزگاری، رشتوں لین دین، اولاد نافرمانی کے باعث خودکشی کی شرح سرفہرست ہے۔ان تمام مسائل کو بتدریج وقت دیکر، صبر اور برداشت سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ عدم برداشت کی روایت مسائل کو جنم دیتی ہے۔جس سے معاشرہ میں امن و سکون تباہ ہوتا ہے۔ آئے روز ایسی خبریں دیکھنے سننے کو ملتی ہیں۔

آجکل معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ طلاق کا ہے۔ باقی مسائل ایک طرف لیکن طلاق کا معاملہ دو افراد بلکہ دو خاندانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں طلاق کی شرح پڑھے لکھے تعلیم یافتہ خاندان میں زیادہ ہے۔ اور عدالتوں میں سب سے زیادہ کیسز بھی خلا اور طلاق کے دائر ہورہے ہیں۔ طلاق ایسا لفظ ہے اور عمل ہے جس کو اللہ نے حلال کے باوجود ناپسندیدہ ترین عمل قرار دیا ہے۔ شیطان اپنے چیلوں کو باقی کسی کام پہ شاباش نہیں دیتا جتنی میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والے کو دیتا ہے بلکہ یہاں تک کہ اس چیلے کو تاج تک پہنایا جاتا ہے۔

طلاق اختلافات کی وجہ ہوتی سے ہے میاں بیوی کو چاہئیے کسی تیسرے پہ اپنے معاملے میں اندھا اعتماد نہ کریں۔ برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اللہ کے رسول نے بھی اسکو ناپسند فرمایا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2012 سے 2017 کے درمیان پنجاب کے 36اضلاع میں خلع یا طلاق کے 4 لاکھ 78ہزار 130کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں، جن میں 20 فیصد صرف فیصل آباد اور لاہور کے اضلاع سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ پنجاب کے 36 اضلاع سے سال 2012 میں 63 ہزار 7سو 34، سال 2013 میں 69ہزار1سو26، سال 2014 میں 74 ہزار 6سو19، سال 2015 میں 77 ہزار 3سو 27، سال 2016 میں 93 ہزار 5سو 7 اور سال 2017 میں 99 ہزار 5 سو 99 جوڑوں نے علیحدگی اختیار کی۔اسی سے ملک کے دیگر حصوں کا اندازہ لگا لیجئے۔خودکشی اور طلاق کو معاشرے میں کم کرنے بلکہ ختم کرنے کیلئے ہر شخص کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں