معراج محمد خان کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں ہوتاہے ۔ نہائیت قابل اور جہاندیدہ سیاست کار تھے ۔ بائیں بازو کے نمائندہ تھے ۔ اور پاکستان کی سیاست کو بھی مغرب کی طرز پر سیکولر جمہوری نظام میں ڈھالنے کے متمنی تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو سے دیرینہ مراسم تھے اور شاید پاکستان کے واحد سیاست دان تھے جو بھٹو صاحب سے کھل کر اختلاف رائے کرتے تھے۔ معراج محمد خان اکتوبر ۱۹۳۸ کو متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ایک قصبے فرخ آبا د میں پیدا ہوئے ۔ معراج محمد خان کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان کے پشتون قبیلے سے تھے جو مہاجرت کے نتیجے میں بلوچستان میں آباد تھا ان کے والد ہومیو پیتھ ڈاکٹر تھے جو کوئٹہ میں اپنا کلینک چلاتے تھے بعد ازاں کسی وجہ سے وہ وہاں سے فرخ آباد منتقل ہوگئے۔ جہاں معراج محمد خان کی پیدائش ہوئی ۔معراج محمد خان چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
بی اے کر لینے کے بعد معراج محمد خان کا اگلا پڑاؤ کراچی یونیورسٹی تھی جہاں سے انہوں نے ایم اے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی اور طلبا سیاست کا اولین درس بھی اسی جامعہ میں پڑھا۔ ۱۹۶۲ میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سے منسلک ہوئے اور ایک ہی سال میں اس کی صدارت پر فائز ہوگئے۔ این ایس ایف کو کہ بائیں بازو کے طلبا کی سیاسی تنظیم تھی اس نے ان کی صلاحیتوں کو خوب نکھارا کہ آپ ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد ٹھہرے اور اس کے تاسیسی اجلاس میں نہ صرف بھر پور شرکت کی بلکہ بھٹو کی چیئرمین شپ کیلئے ناقابل تردید دلائل بھی دیئے۔ اور بھٹو صاحب تا زیست ان کی صلاحیتوں کے معترف رہے۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو بے حد زود رنج مشہورتھے۔ ۱۹۷۳ میں پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایک بار پھر سے این ایس ایف میں جان ڈالنے کی کوشش کی لیکن بے سود ، جنرل ضیاء الحق کے مارشل تک معراج محمد خان گوشہء گمنامی میں رہے لیکن ۱۹۸۱ میں معرض وجود میں آنے والی تحریک بحالی جمہوریت میں بھر پور حصہ لیا ۔ ۱۹۹۸ میں عمران خان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سہ بارسیاسی سفر کا آغاز کیا لیکن ۲۰۰۳ میں اپنی سیمابی طبیعت کے باعث ان سے بھی راہیں جدا کر لیں اور ۲۱ جولائی ۲۰۱۶ ء اپنی وفات تک کبھی قومی سیاسی منظر نابے پر نظر نہیں آئے۔
معراج محمد خان کا طرز سیاست ایک نمائندہ طرز سیاست تھا ۔ وہ بڑے اولالعزم مارکسسٹ تھے۔ اور بائیں بازو کے سرخیل سیاست دان تھے۔ میرے اور ان کے سیاسی نکتہ نظر میں بعد المشرقین ہے لیکن اس کے باوجود میں ان کو ہمشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ معراج محمد خان نے جس بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ وابستگی رکھی خالصتاََ نیک نیتی کی بنیاد پر رکھی۔ اور جب ان سے راہیں جدا کر لیں تو ان کے بارے میں کبھی کوئی الزام تراشی نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ ، تحریک انصاف کے ساتھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ، مزدور کسان کمونسٹ پارٹی کے ساتھ ، جہا ں رہے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ۔معراج محمد خان پاکستان کا بے بدل سیاسی اثاثہ تھے لیکن ہم نے اپنی فطر ی بے حسی کے ساتھ انھیں ضائع کردیا ۔ معراج محمد خان کا طرز سیاست ان سے ساتھ رزق خاک ہوا۔ فی زمانہ پاکستانی طرز سیاست الزام تراشی اور دشنام طرازی سے عبارت ہے۔ ہر کوئی ہر لمحہ حزب مخالف کے کسی کمزور پہلو کی طاق میں رہتا ہے خواہ وہ کوئی خوانگی معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔
شاعر سے معذرت کے ساتھ۔
اک طرز سیاست ہے سو ہم کرتے رہیں گے
اک عرض تمنا ہے سو وہ تم کو مبارک{jcomments on}
101