96

صَدَقَۂِ فِطْر صرف 250 روپے؟

عید سے دو دن پہلے، لاہور کی ایک مصروف مارکیٹ میں ایک دس سالہ بچی، زینب، کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا شاپر تھا، جس میں عید کے دن پہننے کے لیے محض ایک عام سا جوڑا رکھا تھا جو کسی خیراتی ادارے سے ملا تھا۔ وہ اردگرد لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔نئے کپڑے، چمچماتے جوتے، برانڈڈ گھڑیاں، مہنگے موبائل، مہکتے پرفیوم، اور خوشی سے جگمگاتے چہرے۔ مگر زینب کی آنکھوں میں صرف ایک سوال تھا: “کیا میں بھی عید منانے کے قابل ہوں؟”


آپ نے کبھی سوچا ہے، ہم عید پر کتنا خرچ کرتے ہیں؟ ہزاروں کے کپڑے، ہزاروں کے جوتے، قیمتی پرفیوم، دعوتوں پر ہزاروں لٹاتے ہیں، مگر جب صدقہ فطر دینے کا وقت آتا ہے تو ہم گندم کے حساب سے صرف 250 روپے نکال کر سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا۔ کیا یہ 250 روپے ہمارے لائف اسٹائل کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا یہ ہمارے دل کی سخاوت کی سچی تصویر ہیں؟ یا ہم نے اللہ کے ساتھ بھی ایک“پیکیج ڈیل”کر رکھی ہے؟

ہمیں یاد ہے کہ رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد و عورت، آزاد و غلام، چھوٹے بڑے پر فرض ہے۔ اور اس کی حکمت یہ بیان کی کہ یہ روزے میں ہونے والی لغزشوں کی پاکی ہے، اور ساتھ ہی یہ محتاجوں کے لیے عید کی خوشی کا ذریعہ ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا زینب جیسے بچوں کی خوشیاں 250 روپے سے پوری ہو جاتی ہیں؟ کیا ان کی محرومیاں ہم سے اتنی سستی خریدی جا سکتی ہیں؟

ذرا تصور کیجیے، آپ ایک امیر شخص ہیں، مہنگی گاڑی میں بیٹھے، آپ کے بچے مہنگے شاپنگ مال سے عید کے لیے پانچ پانچ جوڑے خرید چکے ہیں، آپ خود جدید گھڑی، کپڑے، موبائل اور جوتوں میں خود کو شاندار محسوس کر رہے ہیں، اور پھر آپ اپنی جیب سے نکالتے ہیں 250 روپے۔فطرہ کے نام پر! کیا یہ واقعی انصاف ہے؟ کیا یہی اللہ کے رسول ﷺ کی سنت کی روح ہے؟ اگر ہم دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں، تو شاید ہماری روح کانپ جائے۔

حضرت محمد ﷺ نے ایک بار فرمایا، “اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔” تو پھر کیوں ہم زینب جیسے بچوں کے لیے صرف فطرہ کے نام پر معمولی رقم نکالتے ہیں، جب کہ ہم خود ہر شے کا بہترین چاہتے ہیں؟ کیوں نہ ہم فطرہ دینے میں بھی وہی معیار اپنائیں جو اپنے بچوں کے لیے رکھتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ عید کے دن صرف اس لیے روئے کہ اس کے پاس پہننے کے لیے کچھ نیا نہیں؟ تو پھر زینب جیسے بچوں کا کیا قصور ہے؟

فطرہ زکوٰۃ النفس ہے۔ بدن کی سالانہ زکوٰۃ۔ سوچیں، جس جسم کو آپ روز مہنگی کریمیں لگاتے ہیں، جس کے لیے صحت مند کھانے خریدتے ہیں، جو قیمتی کپڑے پہنتا ہے، اس کا صدقہ صرف چند روپے؟ کیا یہ ہمارے رب کے ساتھ مذاق نہیں؟ کیا ہماری روح اتنی سستی ہے کہ اس کا فدیہ محض گندم کے چار کلو کے برابر ہو؟

آئیے، ایک لمحے کے لیے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اگر ہماری ماہانہ آمدن لاکھوں میں ہے، تو پھر کیوں نہ ہم کشمش یا عجوہ کھجور کے حساب سے فطرہ دیں؟ یہ نہ صرف سنت کی روح کے زیادہ قریب ہے، بلکہ ہمارے دل کی سخاوت کا بھی آئینہ ہے۔ فطرہ کسی غریب کی مدد ہے، اس کی عزتِ نفس کی حفاظت ہے، اس کی عید کو ہمارے برابر خوشگوار بنانے کا ذریعہ ہے۔

حیرت کی بات ہے، ہم ڈاکٹر کو فیس دیتے وقت بخل نہیں کرتے، بچوں کی فرمائشوں پر خوشی سے پیسہ لٹاتے ہیں، مگر جب رب کے راستے میں دینا ہو تو حساب کتاب لگانے بیٹھ جاتے ہیں۔ گمان کرتے ہیں کہ شاید کم دینے سے بھی اللہ راضی ہو جائے گا۔ مگر یاد رکھیے، گمان وہی ہے جو اللہ کی عظمت کے شایانِ شان ہو۔ اور سخاوت، رب کے قریب لے جاتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق اگر صرف پاکستان کے دس فیصد صاحبِ استطاعت لوگ کشمش یا کھجور کے حساب سے فطرہ دیں، تو تقریباً دس لاکھ سے زائد غریب بچوں کی عید کی خوشیاں سنور سکتی ہیں۔ وہ بچے جو پورا سال پیسوں کی کمی کی وجہ سے نئے کپڑوں کی تمنا ہی دل میں دبا لیتے ہیں، وہ بھی اس دن ایک دن کے لیے مسکرا سکتے ہیں۔

یہ مت بھولیں کہ فطرہ آپ کے بچوں کے سروں کی زکوٰۃ بھی ہے۔ جتنا آپ اپنے بچوں کو قیمتی سمجھتے ہیں، اتنا ہی اللہ کے راستے میں نکالیں۔ اگر آپ کی گھڑی قیمتی، موبائل برانڈڈ، فرنیچر جدید، کچن کا سامان منفرد ہے، تو فطرہ بھی آپ کے اسٹینڈرڈ کا ہونا چاہیے۔

زینب جیسے لاکھوں بچے ہر سال عید پر کسی معجزے کی امید لیے سوتے ہیں۔ ان کی امیدیں، ان کی معصوم دعائیں شاید آپ کے 250 روپے سے کہیں زیادہ کی طلبگار ہوں۔ انہیں صرف پیسے نہیں چاہیے ہوتے، انہیں احساس چاہیے، محبت چاہیے، اور اس بات کا یقین کہ وہ بھی اس خوشی کے دن کا حصہ ہیں۔

تو آئیے، اس رمضان اپنے ضمیر کو جھنجھوڑیں، اپنے نفس کو بیدار کریں، اور اللہ کے لیے، اپنے نبی ﷺ کے فرمان کے لیے، انسانیت کے لیے. فطرہ اپنے لائف اسٹائل کے مطابق دیں۔ کیونکہ عید صرف خوشحالوں کی نہیں ہوتی، یہ ہر اس دل کی عید ہے جو اللہ کے قرب سے خوشی حاصل کرتا ہے۔

یاد رکھیے، اللہ کو آپ کی دولت نہیں، آپ کا دل چاہیے۔ اور جب دل دینے پر آ جائے، تو پھر فطرہ بھی صرف فرض نہیں، ایک احساس بن جاتا ہے۔ اور یہی احساس، ہمیں انسان بناتا ہے۔

تو، اس رمضان… فطرہ دیجئے، مگر اس انداز سے… جیسے آپ کو اپنی روح عزیز ہے۔ جیسے زینب آپ کی اپنی بیٹی ہے۔ جیسے عید سب کی ہونی چاہیے صرف چند کے لیے نہیں۔

صدقہ فطر، صرف رقم نہیں… یہ ایک پیغام ہے… محبت کا، احساس کا، اور اللہ کے شکر کا۔
فطرہ اپنے لائف اسٹائل کے حساب سے دیں کیونکہ اللہ نے آپ کو صرف 250 روپے کی زندگی نہیں دی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں