ابن نذر
صلوۃ جنازہ کی ادائیگی کے بعد جب صف بندی مکمل کر لی جاتی ہے تو ایک بلند آہنگ شخص میت کے ورثاء کی جانب سے چند اعلانات کرتا ہے میت کے ذمہ قرض کی ادائیگی یا لین دین کے متعلق معائد ہ جس کا پورا کرنا
باقی ہو اس کے تکمیل کے لیے ورثاء سے رابطہ کیا جا سکتا ہے چاہے تو فی سبیل اللہ معاف بھی کر سکتا ہے دورسے آئے مہمانوں کے لیے خاطر خواہ کھانے کے بندو بست کا بھی اعلان کیا جاتا ہے تاکہ سب لوگ متوجہ ہو جائیں بعد تکبیر امام حاضر کے ،اگر امام صاحب کی آواز بلند نہ ہو تو مکبر (یعنی تکبیرات کو دہرانے والا)کی ذمہ داری نبھاتا ہے صلوۃ جناز ہ کے اجتماعات عموماً دیہات میں کھلی جگہوں اور آباد ی سے ذرا دور ہوتے ہیں جہاں لاوڈا سپیکر کا بندوبست نہیں ہو سکتا اس فرض کی ادائیگی کا دورانیہ بھی انتہائی مختصر ہوتا ہے جس کی وجہ سے لاؤڈا سپیکر کے بندوبست کی طرف توجہ نہیں ہوتی بہت سے علاقوں میں یہ ذمہ داری مخصوص اشخاص نے اپنے ذمہ لے رکھی ہوتی ہے۔شرعی نقطہ نظر سے جہاں اجتماع زیادہ ہو وہاں ایسے اہتمام ہونے کی صورت میں کسی خلل کی گنجائش نہیں رہتی جوں جوں وقت گزر رہا ہے جہاں دیگر شعبہ جات میں قحط الرجال کا سامنا ہو رہا ہے وہاں اس طرح کی بے لوث خدمات انجام دینے والوں کی کمی بھی واقع ہو رہی ہے عموما جب ایسے لوگ موجود ہوں تو بہت سے ناتواں لوگ اس کی خود نمائی سے تعبیر کرتے ہیں کہ یہ آدمی محض ذاتی مشہوری کے لیے کام کر رہا ہے جب ایسے لوگ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی کمی محسوس ہوتی ہے بعض اوقات صفیں سیدھی کر رہے ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دوسری تکبیر ہو رہی ہے ۔عام حالات میں ہم ان افراد کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان کی آمد اور موجودگی پر کھسر پھسر شروع ہو جاتی ہے ۔بلند آواز ،بھاری بھر کم لہجہ اور ایسے موقعوں پر آواز بلند کر کے کچھ کہہ سکنے کی جراء ت کے حامل مخصوص بلکہ چند افراد ہی ہوتے ہیں اور ایسے افراد کو نہ تو کوئی معاوضہ کا لالچ ہوتا ہے اور نہ ہی خود نمائی کا بلکہ صرف ایک ہی تمنا ہوتی ہے کہ فریضہ کی ادائیگی تسلی بخش ہو پختہ جنازہ گاہوں کی تعمیر بھی ان مخصوص شخصیات کی قدرو منزلت اور ضرورت کم نہیں ہوئی۔جس طرح آج پوش علاقوں اور مخصوص ہاؤسنگ سو سائیٹیوں نے اپنے مکینوں کو تجہیز و تکفین اور جنازہ کی سہولیا ت تک فراہم کر نے کا بیڑ اٹھا رکھا ہے وہاں تو اس چیز کی ضرورت شاید نہ ہو لیکن ملک کی دو تہائی آبادی دور دراز دیہات میں رہ رہی ہے اور برادری کو چھوڑنے کا سوال تک نہیں وہاں مل جل کر ایسی ذمہ داریوں کو بانٹ کر ہی ان تمام کاموں سے عہدہ براء ہوا جاسکتا ہے ۔اسلام کے سب سے پہلے موذن صحابی رسولؐبلند آواز تھے جب آپؓ اذان کے کلمات بلند آواز میں فرماتے تو مکہ المعظمہ اور مدینہ النبی المنورہ آپ کی آواز مبارک سے گونج اٹھتے۔
بہت سی روایات دم توڑ رہی ہیں اور یہ روایت بھی شاید آئندہ چند سالوں تک ختم ہو جائے اب تک تو چند ہمارے بزرگ زندہ ہیں اور وہ ان ذمہ داریوں کو نہایت احسن طریقہ نبھا رہے ہیںآنے والے نوجوانوں کو جھجھک ختم کر کے جرات و حوصلہ پیدا کر کے ایسے اجتماعی کاموں میں حصہ لینا شکرانے کی خاطر بھی اس ذمہ داری کو نبھایا جا سکتا ہے۔{jcomments on}