86

صالح اور دردمند حکمرانوں کی ضرورت/ اخلاق احمد کیانی

آج پھر اخبارات یہ خبر دے رہے ہیں “تھر پارکر:غذائی قلت سے مزید پانچ بچے دم توڑ گئے۔سینکڑوں بچے زیرِ علاج۔ہسپتالوں کی ڈسپنسریوں میں ادویات کی شدید قلت برقرار۔” تھر کے صحرا میں موت نے اپنے بے رحم پنجے پھر سے گاڑدئیے ہیں۔اور اب قومی روزناموں کے پہلے صفحات پانچ ،چھ یا زیادہ بچوں کی المناک موت کی خبروں سے ماتم کناں ہوتے ہیں۔ وجہ وہی خوراک اور دعا کی قلت اور علاج کی سہولیات کی عدم دستیابی۔ روزانہ ان خبروں کو دیکھ کر ہر حساس اور باضمیر شخص کا سینہ درد سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اگر جوں نہیں رینگتی تو ان بے حس اور بے ضمیر لوگوں کے کانوں پر جو ہماری بد بختی کے طور پر ہمارے حکمران ہیں۔ کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے،کوئی کس حال میں جیتا ہے اور کس طرح مر جاتا ہے ، یہ سوچنے کی انہیں ضرورت ہے نہ فرصت۔ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں اس سے زیادہ اہم معاملات میں مشغول ہیں۔ ایک صوبے کی حکومت دن رات اس کرب میں مبتلا ہے کہ کیسے اربوں کی کرپشن کرنے والے ملزم کو صاف بچا لے جبکہ دوسرے صوبے اور مرکز کی حکومت کرپشن اور نااہلی کی نئی داستانیں رقم کرنے میں مصروف ہے۔ ایسی آمریت جس میں عام آدمی کی جان و مال اور آبرو محفوظ نہ ہو اس پر لعنت لیکن ایسی جمہوریت جس میں لوگ بے بسی اور لاچاری کی تصویر ہوں ،اس پر بھی ہزار لعنت۔کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ ان حکمرانوں کی اولادیں ملکی خزانوں کی لوٹ کھسوٹ کے مال پر عیش و عشرت کی وہ زندگی بسر کریں جس کا تصور بھی کوئی عام آدمی تو کجا کوئی مغل شہزادہ بھی نہیں کر سکتاتھا۔ اور دوسری طرف تھر کے معصوم بچے محض اس وجہ سے روزانہ موت کے منہ میں جاتے رہیں کہ ان کے علاج اور خوراک کا کوئی بندوبست نہیں۔ ان کی مائیں آہ و بکا کرتی ہیں اور ان کے باپ ان کی ننھی لاشوں کا ناقابلِ برداشت بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔ تھر کے صحرا سے اٹھنے والی یہ فریادیں شاید کسی درندے کو سنائی دیں تو وہ بھی کانپ اٹھے لیکن اس کرپٹ نظام کے کرتا دھرتا شقی القلب ہیں۔ اقتدار پرستی اور دولت کی ہوس نے ان کے دلوں کو اس گداز سے محروم کر دیا ہے جو ایک انسان اور مسلمان کا اثاثہ ہوتا ہے۔ کل کے مورخین کا یہ درست تجزیہ ہے کہ حجاج بن یوسف ایک ظالم اور جابر حاکم تھا ۔لیکن قوم کی ایک بیٹی کی فریاد پر وہ تڑپ اٹھا ۔اس نے اپنے کمسن بھتیجے کو لشکر دے کر سندھ پر حملہ کرا دیا۔آنے والے کل کے مورخین بھی آج کل کے حاکموں کے بارے میں بالکل درست تجزیہ کریں گے کہ وہ حجاج سے زیادہ بے رحم اور بے حس ہیں۔ آج قوم کی بیٹیاں انصاف نہ ملنے پر خود سوزی کر لیتی ہیں،نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر خود کشی کر لیتے ہیں ، والدین پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے اپنے جگر کے ٹکٹرے فروخت کر دیتے ہیں لیکن قوم سے جھوٹے وعدے کرنے والے اور جھوٹی خوش خبریاں سنانے والا یہ حاکم طبقہ نہ کل بدلا نہ آج۔ اسی لئے اس بد نصیب قوم کا بھی کل بدلا نہ آج۔ کرپشن میں لتھڑے ہوئے اس ظالمانہ اور غاصبانہ نظام میں جینے کا حق صرف چند فیصد لوگوں اور ان کی لاڈلی اولادوں کو ہے۔وہ چند فیصد لوگ جن کے لئے عوام کے خون اور پسینے کی کمائی سے نچوڑا ہوا ٹیکس اور ملک کے تمام تر وسائل مالِ غنیمت کی طرح حاضر ہیں۔ وہ چند فیصد لوگ جن کا معیارِ زندگی دنیا کے پہلے دس یا پانچ امیر ترین آدمیوں کے تصور سے بھی بالاتر ہے۔ وہ چند فیصد لوگ جن کے پالتو جانور اس ملک کی 97% آبادی سے بہتر کھاتے اور پیتے ہیں۔ ان وہ چند فیصد لوگوں کے سوا باقی کسی شخص کو جینے کا حق حاصل نہیں ہے۔باقی تمام لوگ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے ہیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کے مواقع میسر ہیں نہ صحت کی سہولیات، نہ مناسب خوراک اور نہ صاف پانی،نہ مناسب رہائش اور نہ موزوں لباس۔اس کے باوجود کسی کی اولاد ڈھیٹ نکلے،بچ جائے اور کچھ پڑھ لکھ جائے تو اس کا استقبال بیروزگاری کا ایک ناقابلِ عبور صحرا کرتا ہے۔ جہاں صورت حال اس قدر بھیانک اور مایوس کن ہو وہاں کیا تھر کا صحرا اور کیا اس کے باسی۔کیا ان کی اولادیں اور کیا ان کی زندگی۔ قصور ان کا بھی ہے ،جب غاصب طبقہ ان جیسوں کو جینے کی اجازت ہی نہیں دیتا تو وہ کیوں بضد ہیں۔ تھر کے بچوں کی مائیں ان کی لاشوں پر آہ و بکا کریں لیکن یہ دعا بھی کریں کہ اے رب العزت ! ہمیں صالح اور دردمند حکمران عطا فرما۔ان کے باپ روئیں اور تڑپیں لیکن یہ دعا بھی کریں کہ اے مالکِ کل! ہمیں اس ظلم کے نظام سے نجات عطا فرما۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں