صاحبزادہ محمد شفقات مغل
اللہ کے ولیوں کو نہ ماضی کا غم اور نہ مستقبل کا اندیشہ ۔ ان کے دل میں چین ہی چین ہے وہ اللہ سے راضی اور اللہ ان سے راضی ۔ دنیا میں سرخرو اور آخرت میں سرفراز ۔ ان کے نورانی چہروں کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے ۔ وہ قوت و شوکت کے امین
ہیں ۔ وہ توحید رسالت کی دلیل ہیں ۔ ہر صاحب شوکت ان کے در پر حاضری اپنی سعادت سمجھتا ہے ۔ ان کی زندگی جیتا جاگتا قرآن ہے ۔ ان کی سیرتوں کو دیکھ کر قرآن کی عظمت کا احساس ہوتا ہے ۔ بر صغیر پاک و ہند میں اولیا ء اللہ کی خدمات سے دین اسلام کی تبلیغ میں مدد ملی ۔ اولیا ء کرام کے اخلاق حسنہ سے متاثر ہو کر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے بر صغیر پاک و ہند سے اولیاء اللہ کا سلسلہ چلتا ہوا سر زمین پوٹھوہار میں پہنچا ۔ خطہ ء پوٹھوہار کی پہچان ، علاقہ کلیام شریف ۔ کیونکہ وہاں پر شہنشاہ پوٹھوہار ، نور صمدانی ، بانی ء سلسلہ حضرت خواجہ حافظ محمد شریف خان چشتی صابری ، کلیامی کامزار پر انوار ، مرجع خلائق ہر خاص و عام ہے ۔ جو والی ء پوٹھوہار حضرت خواجہ میاں فضل الدین چشتی صابری کلیامی کے مرشد پاک ہیں ۔ حضرت خواجہ حافظ محمد شریف خان چشتی صابری کلیامی کے فیض اسے علاقہ مغل کو شمع ء ہدایت نصیب ہوئی ۔ آپ ہی کے خاندان کے ایک چمکتا ہوا تابندہ ستارا شہنشاہ تصوف حضرت خواجہ حافظ محمد برکت علی چشتی صابری وارثی حافظ نگر میرا چھپر مغل میں 1920ء کو پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام مبارک میں غلام فرید تھا ۔ جو کہ بڑے نیک ، متقی اور پرہیز گار انسان تھے ۔ آپ خاندان مغلیہ کے چشم و چراغ ہیں ۔ آ پ کا سلسلہ نصب بادشاہ ظہیر الدین بابر سے جاملتا ہے آپ کے آباء اجداد پایہ عالم دین اور مقبولان خدا تھے ۔ جب آپ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے تو آپ کے والد محترم نے آپ کو سکول میں داخل کروایا ۔ آپ نے تیسری جماعت تک دنیاوی تعلیم حاصل کی تیسری جماعت میں آپ کو حفظ قرآن کا شوق پیدا ہوا ۔ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے آپ نے دنیاوی تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا ۔ اپنے اس بچپن کے شوق کی تکمیل کے لیے آپ نے ایک دینی مدرسہ میں داخلہ لے لیا ( جوکہ تحصیل گوجر خان میں واقع ہے ) اور وہیں پر رہ کر آپ نے حفظ قرآن کی تکمیل کی بعد از تکمیل حفظ قرآن آپ نے اپنے گھر تشریف لائے تو سب نے آپ کا والہانہ استقبال کیا ۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک دس سال کے لگ بھگ تھی ۔ مدرسے میں عاشقوں ے جس کی بسم اللہ ہو اس کا پہلا ہی سبق یارو ، فنافی اللہ ہو ۔حفظ قرآن کے فورا بعد آپ نے پہلی چلہ کشی اختیار کی ۔ یہ چلہ آپ نے اپنے آبائی گاؤں کے نزدیک دریاء لنگ کے قریب جلیہاری نامی جگہ پر اختیار کیا ۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک گیارہ سال تھی ۔ اس کے بعد آپ نے پھر دنیاوی تعلیم کے حصول کے لیے اسکول میں داخلہ لے لیا اور دنیاوی تعلیم کو مکمل کیا س کے بعد آپ نے فوج کی ملازمت اختیار کر لی ۔ دوسری چلہ کشی آپ نے اٹھارہ سال کی عمر میں اختیار کی جو کہ چوک میاں رانجھا ( کرپا چراہ ) کے نزدیک ایک غار کے اندر آپ نے اکتالیس دن صرف اور صرف پانی اور دودھ پر گزارہ کر کے مجاہد نفس کیا ۔ آپ کو مجاہدہ نفس میں کمال حد تک درجہ حاصل تھا ۔ آ پ نے حضرت بابا شاہجہان موہری مغلوی کے دست حق پر بیت اختیار کی آپ حضور خواجہ حافظ صاحب کلیامی کے سلسلہ عالیہ میں بیت ہیں ۔آپ ہر سال حضرت خواجہ بابا فریدالدین مسعود گنج شکر زاہد الانبیاء کے عرس میں مبارک میں حاضری دیا کرتے تھے ۔ آپ اپنے مریدین کو بھی وہاں جانے کی تلقین فرمایا کرتے تھے ۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کو کچھ لینا مقصود ہو تو وہ دربار باباجی گنج شکر کے عرس مبارک میں حاضری دے اور دریائے فیض گنچ شکر سے اپنے آپ کو سیراب کر ے ۔
آپ ہر سال سخی شہباز قلندر سیون شریف کے عرس مبارک میں بھی حاضری دیا کرتے تھے ۔ چونکہ آپ کے پاس قلندری سلسلہ ء عالیہ کی بھی خلافت تھی اس لیے آپ قلندری سلسلہ عالیہ کے روحانی پیشوا حضرت سخی لال شہباز قلندر کے عرس میں ہر سال لازمی شرکت فرمایا کرتے تھے ۔ آپ ہر سال پا پیادہ و برہنہ پاؤں حضرت کلیامی کے عرس مبارک میں شرکت فرمایا کرتے تھے ۔ آپ کی اسی رسم کو قائم کیے ہوئے آپ کے بہت سے مریدین آج بھی کلیام شریف عرس میں حاضری دینے جاتے ہیں ۔ آپ ساری زندگی شریعت کے اصولوں پر کار بند رہے آپ کا اخلاق حسنہ بہت ہی اعلی درجہ کا تھا ۔ اگر آپ سے کوئی سخت لہجے میں بات کرتا تو آپ اپنے پیارے نبی ء مکرم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے نرم لہجے میں بات کرتے اور اپنے سے چھوٹوں پر شفقت فرماتے آپ نہایت ہی شفیق اور پرہیز گار انسان تھے ۔ اور آپ کی تمام عمر عبادت الہی میں صرف ہوئی ۔ آپ کے پاس جو بھی سائل آیا اسے کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹایا ۔ آپ کو وارثی سلسلہء عالیہ کی طرف سے بھی احرام سے نوازیا گیا ۔آپ کو پیر قبلہ حیرت شاہ وارثی ( کراچی ) سے احرام عطا ہوا سلسلہ ء عالیہ وارثیہ کی طرف سے آپ کو لقب گلستان وارث ( یعنی قبلہ وارث شاہ صاحب کے باغ کا پھول ) عطا ہوا او اسم گرامی شہنشاہ تصوف حضرت خواجہ حافظ محمد برکت علی چشتی صابری المعروف نگہت شاہ وارثی کے خطاب سے نوازاگیا ۔ جس وقت آپ کو وارثیہ سلسلے کے احرام سے نوازا گیا ۔ جس وقت آپ کو وارثیہ سلسلے کے احرام سے سر فراز فرمایا گیا اس وقت قبلہ حیرت شاہ وارثی کے پاس وارثیہ سلسلہ و عالیہ کے منور شاہ وارثی باقی بلھا شاہ وارثی محمد نعیم الدین احمد شاہ وارثی ، امر شاہ وارثی اور بہت سے دوسرے فقراء موجودتھے ۔ آپ نے اپنے مرشد کامل کے حکم اور نظر عنائت سے آخری چلہ کشی اختیارفرمائی جو کہ اکتالیس دن کی تھی جو کہ سلسلہ عالیہ صابریہ کا نہایت ہی سخت چلہ ہے اس میں اپنے مرشد کامل کی نظر عنائت سے سرفراز ہوئے ۔ جہاں پر آپ نے آخری چلہ کشی اختیار فرمائی وہ جگہ آپ کے مزار اقدس کے صحن اقدس میں واقع ہے ۔ آپ نے سترہ محرم الحرام 27نومبر 1980ء کو اس دنیا فانی کو خیر آباد کہہ ابدی زندگی کا جام نوش فرمایا ۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال ماہ نومبر کی 25تا 30تاریخ تک بڑی دھوم دھام سے بمقام حافظ نگر میرا چھپر مغل میں منعقد کیا جاتا ہے جس میں ملک بھر سے مریدین حاضری دیتے ہیں ۔ ہر سال کا اہتمام حضرت صاحبزادہ وامق جاوید چشتی صابری سجادہ نشین دربار عالیہ حافظ نگر تزک و احتشام سے فرماتے ہیں ۔
میں مسکین ، یتیم ، مسافراں ، ہر عیب گناہی
خادم ہاں میں اس دے دردا اوہ ہے مرا سائیں