بابر اورنگزیب چوہدری/اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستانی سیاست میں جہاں چند بڑے اور پرانے ناموں کا ذکر ہو تو ان میں جہاں بہت سے نام آتے ہیں تو ان ناموں میں ایک نام چوہدری نثار علی خان کا بھی شامل ہے کیونکہ چوہدری نثار علی خان ایک پرانے سیاست دان ہیں جو کئی دہائیوں سے قومی اسمبلی کے رکن بن رہے ہیں اور نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک کے سیاست دانوں میں بھی اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں ان کا بے دھڑک ہوکر بات کرنے کا انداز نہ صرف اندورن ملک ان کے مخالفین بلکہ دوسرے ممالک خاص طور پر انڈین سیاست دانوں کو بہت چبتا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنی وزرات داخلہ کے دوران ایک اجلاس کے دوران چوہدری نثار کے خطاب اور دلائل سے باتیں سن کر انڈین وزیر کو بھاگنا پڑا کیونکہ ان کے پاس انکی کسی بات کا تو نہ ہی کوئی جواب تھا نہ ہی انکے سامنے بات کرنے کی ہمت اس کے علاوہ یو ٹیوب پر ناموس رسالت کا معاملہ ہو یا پھر کوئی اور بات تو چوہدری نثار نے ڈٹ کر بات کی چوہدری نثار علی خان جو مسلسل قومی اسمبلی کے ممبر بنتے آرہے تھے مگر انکی قسمت کی دیوی انکو اس وقت دغا دے گئی جب 2018 کے الیکشن میں شکست انکا مقدر بنی اس الیکشن میں جہاں بہت سی انکی اپنی کوتاہیاں ان کے قریبی ساتھیوں کے عوام سے رویے اور انکی اپنی عوام سے دوری سبب تھی تو وہی پر ایک بڑی وجہ مسلم لیگ ن سے اپنی راہیں جدا کرنا بھی تھی الیکشن سے قبل ہی نواز شریف سے انکے اختلافات شدت اختیار کر چکے تھے جو انکی وزارت عظمی کے دوران ہی شروع تھے مگر انکے جاتے ساتھ ہی یہ اختلافات مذید بڑھتے گئے اور وہ اختلافات الیکشن سے قبل اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ مسلم لیگ ن نے انکو پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا جس پر انھوں نے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا چوہدری نثار علی خان بارہا دفعہ اسکا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ انکے مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف سے دیرینہ تعلق ہیں انھوں نے نواز شریف سے اپنے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے بھی بڑے جتن کیے جن میں انکا لندن جانا بھی اس پلان میں شامل تھا کہ وہ ان سے ملاقات کریں گے جس میں بہت سے ان کے قریبی ساتھیوں نے ان اختلافات اور رنجشوں کو کم کرنے میں انکا ساتھ بھی دیا اور نواز شریف کو سمجھایا بھی جن میں سرفہرست مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف‘ اسحاق ڈار سمیت دیگر مسلم لیگی رہنما شامل ہیں مگر نواز شریف ان سے ملنے سے انکاری رہے اور تعلقات کی بحالی پر راضی نہ ہوئے جس پر چوہدری نثار علی خان نے بھی خاموشی اختیار کر لی مگر حالیہ کچھ دن قبل جب میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو انکی تعزیت کے لیے چوہدری نثار علی خان لاہور رائیونڈ گئے اور میاں شہباز شریف سے ملاقات کی یہ ملاقات کروانے میں خواجہ سعد رفیق اور سردار ایاز صادق کا کردار تھا ذرائع کے مطابق میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان ون ٹو ون ملاقات تھی جس میں کوئی تیسرا فرد شامل نہیں تھا جو دو گھنٹے سے زائد جاری رہی بلکہ میاں شہباز شریف سے اس ملاقات کے علاوہ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق سے بھی الگ ملاقات ہوئی جسکی بعد میں انھوں نے تصدیق بھی کی کہ واقعی انکی ملاقات ہوئی ہے مگر یہ ملاقات انکے ذاتی تعلق کی بنا پر ہوئی ہے اس لیے اس ملاقات کا کوئی اور نتیجہ نہ اخذ کیا جائے ذرائع کے مطابق ان دونوں طویل ملاقاتوں کے دوران جہاں بہت سے گلہ شکوے ہوئے‘ موجودہ گورنمنٹ کی کارکردگی اور مسلم لیگ ن کے بیانیہ پر بات ہوئی تو وہی پر میاں نواز شریف سے انکی صلح کروانے کی بات بھی ہوئی جس پر انکا میاں نواز شریف سے ٹیلیفونک رابطے کروانے کی بھی کوشش کی گئی کہ وہ ان سے انکی والدہ کی تعزیت کر سکے اور خیریت پوچھیں تو شاید میاں نواز شریف کے دل میں بھی پرانی قربت جاگ جائے اور وہ گلے شکوے بلا دیں مگر نواز شریف سے رابطہ نہ ہوسکا لیکن چوہدری نثار علی خان کی حالیہ پیش قدمی اور میاں شہباز شریف سے طویل ملاقات ایک بات کی طرف تو اشارہ کر رہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان دوبارہ مسلم لیگ ن کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں اور انکے قریبی اور دیرینہ ساتھی بھی یہی چاہتے ہیں کہ انکی رنجش میاں نواز شریف سے ختم ہو جائے تب ہی وہ میاں نواز شریف سے رابطہ کروانے پر بضد ہیں اور اس پر سرگرم ہے بظاہر لگتا یہی ہے کہ کوئی بڑا بیک تھرو ہونے جارہا ہے جسکی ابتدا نواز شریف سے انکی والدہ کی وفات پر چوہدری نثار علی خان کی تعزیت ہوگی لیکن کیا چوہدری نثار مسلم لیگ ن کا حصہ بننے جارہے یا مستقبل میں مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہونگے اسکا فیصلہ میاں نواز شریف نے ہی کرنا ہے کیونکہ اس فیصلے کا اختیار حتمی طور پر انکے پاس ہی ہے اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
265